Sunday 15 November 2015

مرزا ہادی رسوا بارہ سال دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں

مرزا ہادی رسوا بارہ سال دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں
ڈاکٹر سید داؤد اشرف آرکائیوز کے ریکارڈ سے: (ادبی ڈائری، 25 دسمبر 2014)
مرزا محمد ہادی رسوا کو ان کے علم و فضل کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی بلند پایہ تخلیقی صلاحیتوں کے باعث اردو دنیا میں شہرت دوام حاصل ہوئی ۔ رسوا ریاضیات ، فلسفہ ، فلکیات اور موسیقی میں دستگاہ رکھنے کے علاوہ فارسی ، عربی ، انگریزی اور عبرانی پر عبور رکھتے تھے ۔ وہ ماہر مترجم بھی تھے ۔ ادب میں انھوں نے شاعری اور ناول کی جانب توجہ دی ۔ وہ اردو کے بہت بڑے ناول نویسوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور ان کا ناول امراؤ جان ادا اردو کے بہترین ناولوں میں شمارکیا جاتا ہے ۔ جامعہ عثمانیہ اور دارالترجمہ کا قیام عمل میں آنے پر جو ممتاز ماہرین تعلیم ، اساتذہ اور مترجم حیدرآباد آئے تھے ، ان میں مرزا محمد ہادی رسوا بھی شامل تھے ۔ دارالترجمہ میں جب ان کا مترجم کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا وہ کرسچین کالج لکھنؤ کی ملازمت چھوڑ کرمستقلاً حیدرآباد منتقل ہوگئے اور وفات پانے تک دارالترجمہ میں برسرخدمت رہے ۔
دارالترجمہ میں رسوا کی ملازمت کے بارے میں تفصیل سے نہیں لکھا گیا ہے اور جو کچھ بھی لکھا گیا ہے درست نہیں ہے ۔ مرزا محمدہادی رسوا عمر میں عبدالماجد دریا بادی سے کافی بڑے تھے ، اسی لئے بعض مضمون نگاروں نے بلاتحقیق رسوا کو مولانا عبدالماجد کا پیش رو مترجم ظاہر کیا ہے ۔ بعض نے دونوں مترجمین کا دور ایک بتایا ہے ۔ حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دارالترجمہ کے لئے سب سے پہلے جن چند مترجمین کا تقرر ہوا تھا ، مولانا عبدالماجد ان میں شامل تھے لیکن وہ گیارہ مہینے کام کرنے کے بعد دارالترجمہ کی خدمت سے مستعفی ہوگئے ۔ مولانا عبدالماجد کے مستعفی ہونے سے فلسفے کے مترجم کی جو جگہ خالی ہوئی تھی اُس پر رسوا کا تقرر عمل میں آیا ۔ رسوا نے دارالترجمہ میں بارہ سال سے زیادہ مدت تک مترجم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ رسوا نہ صرف یہ کہ غیر ملکی تھے بلکہ دارالترجمہ کی خدمت پر رجوع ہونے کے وقت ان کی عمر ساٹھ برس سے تجاوز کرچکی تھی لیکن ان کی علمیت اور قابلیت کا لحاظ کرتے ہوئے انھیں دونوں پابندیوں سے استثنا دیا گیا ۔ اس ملازمت کے دوران دو بار انھیں ترقی کے مواقع آئے مگر وہ بدقسمتی سے ترقی نہ پاسکے ۔ رسوا کی تقرری ،زائد تنخواہ کی مشروط منظوری اور ناظر ادبی کی خدمت پر ترقی کے سلسلے میں جو کارروائیاں ہوئی تھیں اس کی تفصیل ریاستی آرکائیوز میں محفوظ سرکاری مسلوں میں موجود ہیں ۔ اس دستاویزی اور مستند مواد کا ترتیب وار خلاصہ درج ذیل ہے ۔
دارالترجمہ کے مترجم کی خدمت سے مولانا عبدالماجد کے مستعفی ہونے پر آصف سابع کا حسب ذیل فرمان صادر ہوا تھا ۔ ’’جبکہ عبدالماجد نے بطور خود استعفی پیش کردیا ہے تو وہ منظور کرلیا جائے اور ان کی جگہ دوسرے لائق اشخاص کے نام پیش کرکے میری منظوری حاصل کرلی جائے‘‘ ۔
اس سلسلے میں کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ناظم دارالترجمہ نے درخواستیں طلب کرنے کے لئے ایک اشتہار اخبارات میں شائع کروایا تھا ۔درخواستوں اور تراجم کے نمونہ جات کی وصولی کے بعد امیدوار کے انتخاب کی غرض سے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس سے ناظم دارالترجمہ نے تمام درخواستیں اور تراجم کے نمونے رجوع کئے ۔ اس کمیٹی نے امیدواروں کی قابلیت و خصوصیات اور دارالترجمہ کی ضروریات پر غور کیا اورکافی بحث اور غور کے بعد بالاتفاق یہ رائے ظاہر کی کہ تمام امیدواروں میں مرزا محمد ہادی پروفیسر کرسچین کالج لکھنؤ اس خدمت کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہیں کیونکہ وہ اردو زبان کے مشہور نثر نگار اور انشا پرداز ہونے کے علاوہ انگریزی میں فلسفہ کے بی اے بھی ہیں ۔اس لحاظ سے ان کا تقرر ہر حیثیت سے مفید ہوگا ۔ اس سلسلہ میں ناظم دارالترجمہ کی جانب سے پیش کردہ تحریک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسوا اس خدمت کی ابتدائی تنخواہ 300 روپے پر کام کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ وہ اس خدمت کے لئے400 روپے ماہوار چاہتے تھے ۔ رسوا کی لیاقت اور قابلیت کا لحاظ کرتے ہوئے معتمد عدالت و صدر الصدور نے بمشاہرہ (400) ماہوار پر ان کے تقرر کی سفارش کی ۔ اوپر بیان کردہ کارروائی کی بنیاد پر معتمد فینانس کی جانب سے ایک یادداشت مورخہ 14 شوال 1337 م13 جولائی 1919ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ رسوا کا تقرر 400 روپے ماہوار ابتدائی یافت پر اس طرح منظور کیا جائے کہ وہ 300 روپے تنخواہ اور 100 روپے پرسنل الاونس پاتے رہیں اور جیسے جیسے انھیں اضافہ تدریجی حاصل ہو یہ پرسنل الاونس اس میں جذب ہوتا رہے ۔ چونکہ مرزا محمد ہادی رسوا غیر ملکی تھے اور ان کی عمر 60 سال سے زیادہ تھی اس لئے اس یادداشت میں زیادہ عمر اور قید ملکی سے استثناء دینے کی بھی درخواست کی گئی تھی ۔ اس یادداشت کو منظوری حاصل ہوئی اور رسوا کے تقرر کے لئے آصف سابع کا جو فرمان مورخہ 18 شوال 1337 م 17 جولائی 1919 ء صادر ہوا تھا اس کی عبارت حسب ذیل ہے ۔
’’معتمد فینانس کی رائے کے مطابق خدمت مذکورہ پر مرزا محمد ہادی کا تقرر بماہوار ابتدائی 300 روپے اور پرسنل الاونس 100 روپے کیا جائے اور ان کو تدریجی اضافہ جیسے جیسے دیا جائے گا ویسے ویسے پرسنل الاونس میں کمی اس مقدار میں کی جائے‘‘ ۔
تقرر کے احکام صادر ہونے پر مرزا محمد ہادی رسوا 9 اگست 1919 کو رجوع خدمت ہوئے ۔ تقریباً تین سال تک مترجم کی خدمت پر کام کرنے کے بعد انھیں ناظر ادبی کی خدمت پر ترقی کا موقع آیا تھا مگر وہ ناظر ادبی کی خدمت پر ترقی نہ پاسکے ۔ اس کی تفصیلات یہ ہیں ۔ آصف سابع کے احکام پر حیدر نظم طباطبائی بوجہ پیرانہ سالی ناظر ادبی کی خدمت سے سبکدوش کردئے گئے تھے ۔ اس کے بعد ناظم دارالترجمہ نے تحریک کی کہ ادبی نقطہ نظر سے ترجموں کے مسودات کی تنقید لازمی ہے ۔ اس لئے 500 تا 600 روپے کا ایک عہدہ اس غرض سے قائم کرکے مرزا محمد ہادی کا تقرر جو اس وقت 425 روپے پارہے ہیں ، بمشاہرہ 500 روپے کیا جائے ۔ ناظم دارالترجمہ کی یہ تحریک مجلس اعلی جامعہ عثمانیہ نے منظور کی اور صدراعظم نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے ایک یادداشت مورخہ 5 ذی الحجہ 1340 م 30 جولائی 1922 ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی ۔ اس یادداشت پر رسوا کی ترقی کی منظوری دینے کی بجائے آصف سابع نے وظیفہ پر علاحدہ کردہ ناظر ادبی حیدر نظم طباطبائی کو پھر اسی خدمت پر بحال کردیا ۔ اس بارے میں جو فرمان مورخہ 8 ذی الحجہ 1340 م 2 اگست 1922 ء صادر ہوا تھا اس کی عبارت ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
’’میں نے گو حیدر یار جنگ بہادر طباطبائی کی پیرانہ سالی کا خیال کرکے ان کو وظیفہ پر علاحدہ کردیا تھا مگر بعد کو معلوم ہوا اور میں نے خود بھی دیکھا کہ ان کے قویٰ ابھی کام کرنے کے لائق ہیں گو پیرانہ سالی موجود ہے ۔ اس لئے اس امر کے مدنظر دو سال کے لئے سابقہ خدمت پر میں ان کو 15 ذی الحجہ سنہ جاریہ سے بحال کرتا ہوں ۔ اس کا انتظام کیا جائے اور ان کو میرے حکم سے مطلع کیا جائے‘‘ ۔
حیدر نظم طباطبائی کی دو سالہ میعاد ختم ہونے پر انھیں مزید دو سال کی توسیع دی گئی اور جب وہ 11 جولائی 1926 ء کو قطعی طور پر سبکدوش ہوگئے
ایک بار پھر ناظر ادبی کی خدمت خالی ہوئی ۔ اس وقت دارالترجمہ میں جوش ملیح آبادی آچکے تھے ۔ اس خدمت کے لئے تین درخواست گزار تھے جن میں جوش بھی ایک تھے ۔ ناظم دارالترجمہ (مولوی عنایت اللہ) نے ان درخواست گزاروں کے تعلق سے لکھنے کے بعد شعبہ کے دو اراکین مرزا محمد ہادی رسوا اور مولوی عبداللہ عمادی کے نام بھی پیش کئے تھے اور ان کے بارے میں علاحدہ علاحدہ سفارش لکھی تھی ۔ رسوا کے بارے میں انھوں نے لکھا تھا ’’مرزا محمد ہادی اس وقت فلسفہ کی کتاب کا ترجمہ کررہے ہیں ۔ اردو ترجموں میں ادبی اصلاح دینے کی خدمت وہ کئی بار پہلے بھی حیدر یار جنگ بہادر کے زمانہ رخصت یا علاحدگی میں انجام دے چکے ہیں ۔ مرزا صاحب انگریزی زبان اور السنہ مشرقیہ سے واقف ہونے کے علاوہ اردو نثر میں بھی اپنی تصانیف کی وجہ سے بہت شہرت رکھتے ہیں ۔ اس وقت وہ 500 – 600 روپے کے گریڈ میں مترجم درجہ اول کا عہدہ رکھتے ہیں ۔ ناظر ادبی کی تنخواہ صرف 500 روپے ہے اگر مرزا صاحب کا گریڈ جو اس وقت ان کو حاصل ہے بدستور قائم رکھتے ہوئے ادبی تنقید ان کے سپرد کی جائے تو نہ صرف اصلاح زبان بلکہ ضرورت کے وقت انگریزی کتابوں کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ انجام دے سکیں گے‘‘ ۔
ناظم دارالترجمہ کے بعد معتمد عدالت و کوتوالی (اکبر یار جنگ) نے رسوا کی قابلیت اور مسلمہ زبان دانی کا بہت اچھے الفاظ میں اعتراف کیا مگر انھوں نے اس کارروائی کا رخ ہی موڑ دیا اور اس طرح رسوا کو مقابلے سے باہر کردیا ۔ انھوں نے رسوا کے بارے میں حسب ذیل رائے دی تھی ۔
’’ناظم موصوف نے مرزا محمد ہادی مترجم فلسفہ کو ان کے موجودہ گریڈ پر قائم رکھ کرناظم ادبی کا کام سپرد کرنے کی رائے عرض کی ہے ۔ اگرچہ مرزا محمد ہادی کی قابلیت اور زبان دانی مسلم ہے لیکن اس وقت وہ ایک مفید اور اہم کام کررہے ہیں ۔ اب اس کو چھوڑ کر دوسرا کام ناظر ادبی کا اُن کے سپرد کرنا کچھ مناسب نہیں پایا جاتا اور دونوں کام کا بوجھ ان کے سن و سال و حالت صحت کے لحاظ سے ناقابل برداشت ہوجائے گا ۔ اس لئے دونوں کام بااحسن وجوہ انجام پانا ناممکن ہے اور ایک ایسے قابل ترین آدمی کی قابلیت سے پورا فائدہ اسی حالت میں اٹھایا جاسکتا ہے جبکہ وہ مختلف ذمہ داریوں سے آزاد رکھا جائے اور مجھے کچھ شبہ نہیں کہ اگر وہ اپنے اہم ترین کام سے ہٹادے گئے تو ان کا کوئی موزوں جانشین بآسانی مل سکے گا‘‘ ۔
معتمد عدالت و کوتوالی و امور عامہ نے ناظر ادبی کی خدمت پر جوش ملیح آبادی کے بارے میں جو رائے و بھرپور سفارش دی تھی ۔ مجلس اعلی جامعہ عثمانیہ کے اراکین نے اس سے پوری طرح اتفاق کیا ۔ اس بارے میں صیغہ عدالت کی جانب سے عرض داشت مورخہ 21 صفر 1345 م 31 اگست 1926 ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی اور آصف سابع نے ناظر ادبی کی خدمت پر جوش کے تقرر کے احکام جاری کئے ۔ اس طرح رسوا دوسری بار ناظر ادبی کی خدمت پر ترقی نہیں پاسکے ۔ اس کے بعد رسوا کے لئے آخر تک ناظر ادبی کی خدمت پر ترقی کا کوئی موقع ہی نہیں تھا کیونکہ رسوا کے انتقال کے بعد بھی جوش تقریباً تین سال تک ناظر ادبی کی خدمت پر فائز تھے ۔
مرزا محمد ہادی رسوا 9 اگست 1919 کو دارالترجمہ میں فلسفہ کے مترجم کی خدمت پر رجوع ہوئے تھے اور وفات پانے تک اسی خدمت پر کام کرتے رہے ۔ اس طرح دارالترجمہ میں ان کی ملازمت کی مدت 12 سال 2 ماہ ہوتی ہے اور ملازمت کے آخری سال ان کی ماہانہ یافت 500 روپے تھی ۔ رسوا کا انتقال 21 اکتوبر 1931 ء حیدرآباد میں ہوا اور وہ یہیں سپرد لحد کئے گئے ۔
رسوا نے فلسفہ ، منطق اور نفسیات کی چند اہم تصانیف کا ترجمہ کیا تھا ۔ دارالترجمہ کی جانب سے رسوا کی حسب ذیل کتابیں شائع ہوئیں ۔
(1)جمہوریہ افلاطون (۲) مفتاح الفلسفہ (۳) مبادی علم النفس (۴) تاریخ فلسفہ اسلام (۵) مفتاح المنطق (حصہ اول و دوم) (۶) حکمتہ الاشراق (۷) معاشرتی نفسیات (۸) اخلاق نقوماچس
رسوا کی یہ تمام کتابیں ریاستی آرکائیوز کی لائبریری میں موجود ہیں ۔ اردو زبان میں وضع اصطلاحات کے لئے ماہرین کی جوکمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں ، ان میں بحیثیت رکن رسوا کو بھی شامل کیا گیا تھا ۔
رسوا دارالترجمہ میں مترجم کے فرائض انجام دینے کے علاوہ ضرورت پڑنے پر درس و تدریس کا کام بھی انجام دیا کرتے تھے ۔ جامعہ عثمانیہ میں فلسفہ اور منطق پڑھانے والے پروفیسر جب رخصت پر ہوتے رسوا ان کی جگہ پر طلبہ کو فلسفہ اور منطق کا درس دیا کرتے تھے (ملاحظہ ہو مضمون ’’جوش حیدرآباد میں سترہ برس بعد‘‘ از سید معین الدین قریشی ، مطبوعہ ماہنامہ صبا، حیدرآباد ، اگست ، ستمبر 1966ء)

No comments:

Post a Comment