Sunday 15 November 2015

مرزا محمد ہادی رسوا

مرزا محمد ہادی رسوا کی تاریخ پیدائش اور سنہ دونوں کے بارے میں محققین کے درمیان کافی اختلاف رہا ہے اور اس سلسلہ میں لوگو ں نے کافی سر کھپایا ہے۔ خاصی طویل بحثیں بھی ہوئی ہیں، جن سے ادبی رسائل کے اوراق بھرے ہوئے ہیں، اور ان میں نامور محققین اس میں حصہ لیتے رہے ہیں،۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ لیکن اب نامور ناقد اور محقق پروفیسر قمر رئیس نے اس سلسلہ میں مصدقہ سند پیش کی ہے۔ انہوں نے ایوان اردو ستمبر 2008ءکے شمارے میں لکھا ہے کہ ”مرزا محمد ہادی رسوا کی صحیح اور مصدقہ تاریخ ولادت 20نومبر 1858ء روز شنبہ مطابق 13ربیع الاخر 1275ہجری ہے۔ اپنی یہ تاریخ ولادت مرزا رسوا نے دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ کی ملازمت اختیار کرتے ہوئے خود درج کی تھی۔ “

ظاہر ہے کہ اس سے بہتر کوئی سند نہیں ہو سکتی۔ جب مرزا رسوا نے بوقت ملازمت اپنی تاریخ پیدائش رجسٹر پر درج کی تھی تو وہی مصدقہ ہے۔ 

مرزا محمد ہادی رسوا کی شہرت’ امراؤجان ادا ا‘ناول کی وجہ سے ہے۔ جس کا ترجمہ دنیا کی دودرجن سے زائد زبانوں میں ہو چکا ہے۔ لیکن مرزا رسوا نے ا س کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا ہے وہ عبقری شخصیت کے مالک تھے، بلندپایہ شاعر اور ناقد تھے۔ ان کی شخصیت جامع الکمالات تھی۔ چونکہ اس سال ان کی پیدائش کے ڈیڑھ سو سال مکمل ہو رہے ہیں اس لحاظ سے اردو کے اس عبقری دانشور کی شایان شان یاد منانی ضروری ہے۔ مرزا رسوا کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو اس سے کائنات کے کئی راز منکشف ہو تے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مرزا رسوا نے اپنی ذات کو تلاش کرنے میں ہی ایک طویل مدت صرف کر دی تھی۔ وہ اپنی ایک تخلیق امراؤ جان ادا کی وجہ سے یاد تو رکھے گئے لیکن ان کو اس طرح سے کہاں یاد رکھا گیا جس طور پر ایک ادیب کو یاد کیا جانا چاہئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مرزا رسوا امراؤ جان ادا کا ایک کردار نہ ہو تے تو شاید انہیں یکسر فراموش کر دیا جاتا۔

” امراؤ جان ادا“ 1899ء میں شائع ہو ئی تھی۔ اس وقت رسوا تقریباً 41 برس کے تھے۔ انہوں نے اپنے اس ناول میں لکھنئو کی زوال آمادہ تہذیب کا عکس پیش کیا ہے۔مگر آج بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ رسوا ایک فلسفی تھے، شاعر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ انجینئر بھی تھے۔ انہیں راگ راگنیوں پر بھی درک حاصل تھا۔ 

مرزا رسوا 20نومبر 1858ء کو لکھنئو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا محمد تقی نواب محمدآصف الدولہ کی فوج میں اعلیٰ عہدیدار رہے، چنانچہ علمی ذوق رسوا کو ورثہ میں ملا۔ وہ کم عمری میں والدہ کی آنچل کی چھاؤں سے محروم ہو گئے تھے اور 15سال کی عمر میں والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ جاگیر، جائیداد سب رشتہ داروں نے غصب کر لی۔ کچھ دن ننیہال میں رہے تو روکھی سوکھی بھی طعن و تشنیع کے ساتھ ملتی تھی اور رسوا کو یہ رسوائی گوراہ نہ تھی۔ اس لئے جو کچھ بچ رہا تھا اسے بیچ کر وہ تعلیم حاصل کرنے میں لگ گئے۔ اوائل عمری میں ہی عربی، فارسی، ریاضی اور نجوم اپنے والد سے سیکھ چکے تھے۔ شرح جامی کا 
امراؤ جان ادا کی کہانی کو ہندوستان پاکستان میں کئی بار فلمایا جا چکا ہے

درس اس وقت کے نامور استاد مولوی محمد یحیٰ سے حاصل کیا۔ مولوی کمال الدین نے فلسفہ اور منطق میں کمال تک پہنچایا۔ لیکن انگریزی زبان انہوں نے خود سے سیکھی۔ ویسے تو رسوا کو جو بھی علم حاصل کرنے کی سوجھی انہوں نے اس میں خود کو کھپا دیا اور اسی کے ہو رہے۔ لیکن انگریزی سیکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں علم کیمیا سے دلچسپی تھی اور اس زمانے میں کیمیا کی کتابیں ہندوستان میں دستیاب نہیں تھیں۔ یہ کتابیں وہ لندن سے منگوایا کرتے تھے۔

1885ء میں رسوا نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے ذہن میں پتا نہیں کیا آیا کہ انہوں نے روڑکی کے انجیئنرنگ کالج میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے اورسیئر کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور ریلوے میں ملازمت کر لی۔ کوئٹہ کی ریلوے لائن اس کے درمیانی ریلوے اسٹیشن کے نقشے، ریلوے لائن کے پیچ و خم رسوا نے ہی قائم کیے تھے۔ جہاں موڑ آتے وہاں وہ علم ریاضی کی مدد لیتے جن کے ضابطوں کی روشنی میں انہوں نے ریل کی رفتار کا تقرر کر کے ریلوے کے نئے ضابطے بنائے۔ 

ایک ریل سفر کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جب ریل کی رفتار یکساں رہتی ہے تو ریل کی پٹریوں پر ایک مخصوص لحن پیدا ہو تا ہے جس میں موسیقیت پائی جاتی ہے۔ اس خیال نے ہی مرزا رسوا کو فن موسیقی کی جانب راغب کیا تو انہوں نے تقریباً300 راگ راگنیوں پر عبور حاصل کر لیا اور انگریزی موسیقی کی طرح ہندوستانی موسیقی کے بھی ضابطے تیار کیے جو آ ج بھی موسیقاروں کے کام آرہے ہیں۔ 
ریلوے کی ملازمت سے سبک دوش ہو کر وہ کوئٹہ سے لکھنئو چلے آئے اور کرسچن کالج میں فارسی کے استاد مقرر ہو گئے۔ کالج میں یوں تو وہ فارسی کے استاد تھے لیکن علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ تاریخ، منطق، فلسفہ، ریاضی، نفسیات یعنی جس موضوع پر گفتگو کرتے نہ صرف طلبا بلکہ اساتذہ بھی عش عش کر اٹھتے۔ اس وقت تک رسوا کو شاعری سے دلچسپی پیدا نہیں ہو ئی تھی مگر جب شاعری کرنے لگے تو مرثیہ کے مشہور شاعر مرزا سلامت علی دبیر سے اصلاح لی۔ لیکن خود مرزا دبیر نے ان کا رنگ سخن دیکھ کر انہیں محمد جعفر اوج کے سپر د کر دیا اور اس طرح انہیں اوج کی بھی سرپرستی حاصل رہی۔ 

مرزا رسوا کی طبیعت میں قلندری تھی۔ وہ شب و روز مطالعہ میں غرق رہا کرتے تھے۔ 60سال کی عمر میں وہ کرسچن کالج سے سبک دوش ہوئے اور پھر انہیں حیدر آبا د کے دارالترجمہ میں رکھ لیا گیا۔ جہاں وہ 18 اگست 1919ء تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور دار الترجمہ کا وہ دور حیدرآباد کی علمی ترقی کا زریں دور کہلاتا ہے۔ اس زمانے میں وہاں عبد اللہ عمادی، علی حیدر نظم طبا طبائی، مرزا محمد ہادی رسوا، جوش ملیح آبادی کے علاوہ مولوی عبد الحق بھی ادارے سے وابستہ تھے۔ دارالترجمہ میں مرزا رسوا نے تقریباً دس قیمتی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ ان میں ”مفتاح المنطق“ کا انگریزی سے ترجمہ کیا۔شہا ب الدین سہر وردی کی کتاب حکمت الاشراق کا عربی سے ترجمہ کیا۔ نفسیات،فلسفہ اور منطق کی کتابوں کے انگریزی، عربی اور فارسی سے براہ راست ترجمے کیے۔ افلاطون اور ارسطو کی کتاب کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا محمد ہادی رسوا نے اردو شارٹ ہینڈ پر بھی ایک کتاب لکھی تھی اور اردو ٹائپ رائٹر کے کی بورڈ کے سلسلہ میں بھی ان کا کام بہت نمایاں رہا۔ 

مرزا رسوا کی تخلیقات میں صرف امراؤ جان ادا کا ہی نام لیا جاتا ہے حالانکہ ان کے افسانوں اور ناولوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ تحقیقی اور تنقیدی مضامین بھی وافر تعداد میں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے مرزا رسوا پر کام ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ 

21 اکتوبر 1931ء کو حیدر آباد میں رسوا کا انتقال ہوا اور انہیں مسجد فرمان واڑی سے متصل قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اس طرح لکھنئو سے جو جامع الکمالات شخصیت اٹھی تھی وہ حیدر آباد کی خاک میں مل گئی۔

1 comment: