Sunday 15 November 2015

مرزا محمد ہادی رسوا (1858 -1931)

مرزا محمد ہادی رسوا (1858 -1931)
ناول نگار، ادیب ، شاعر، جامع علوم و فنون
نام محمد ہادی، تخلص مرزا، فرضی نام رسوا تھا۔ لکھنؤ کے محلہ "بگٹولہ" میں 1858 میں پیدا ہوئے۔ آپ کے مورث اعلیٰ ماژ ندران سے دلی آئے تھے اور وہاں سے لکھنؤ آ کر سکونت اختیار کرلی۔ آپ کے والد کا نام آغا محمد تقی تھا۔ والدین کا سایہ سولہ سال کی عمر میں ہی سر سے اٹھ گیا۔ رشتے کے ایک ماموں نے پرورش کی لیکن تمام خاندانی ترکے پر قابض ہوگئے۔ فارسی کی درسیات، علوم ریاضی اور نجوم کی تحصیل اپنے والد سے کی۔ اس کے بعد عربی اور مذہبی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انگریزی پڑھنی شروع کی۔ انٹرنس کا امتحان پرائیوٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔ اس کے بعد رڑکی چلے گئے۔ وہاں سے اورسیئری کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی سے منشی کامل کا امتحان بھی پاس کیا۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے پرائیوٹ طور پر بی۔اے کی اور امریکہ کی اورینٹل یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
ابتدا میں کوئٹہ اور بلوچستان ریلوے محکمے میں ملازم ہوئے۔ ایک دن اتفاقاً کیمسٹری کا ایک عربی رسالہ ہاتھ آگیا۔ اس کے مطالعے کے بعد علم کیمیا کا شوق اس حد تک دامن گیر ہوا کہ ملازمت سے مستعفی ہو کر لکھنؤ چلے آئے۔ یہاںنحاس مشن اسکول میں فارسی کے استاد مقررہوگئے۔ فاضل اوقات میں کیمیا سازی کے تجربے کرتے رہے۔ اسی زمانے میں ایک لوہار کے لڑکے کو ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔ معاوضے میں اس کی بھٹی استعمال کرتے اور کیمیا سازی کے آلات تیار کرتے۔ "اشراق" نام کا ایک پرچہ بھی اسی زمانے میں نکالا۔ بعد میں لکھنؤ کے "ریڈ کرسچین کالج" میں لکچرر مقرر ہوئے۔ یہاں کے پرنسپل بریڈے صاحب ان کے بڑے معتقد تھے۔ اس کالج میں وہ عربی، فارسی، تاریخ، فلسفہ سبھی کچھ پڑھاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی شام کے وقت "ازبیلا تھوبر من گرلس کالج" میں تدریس کی خدمت انجام دیتے۔ کچھ دنوں بعد علم نجوم کا شوق اس طرح مسلط ہوگیا کہ دونوں کالجوں کی ملازمت چھوڑ کر اس علم کے پیچھے پڑ گئے اور "زیح مرزائی" کے نام سے ستاروں کا ایک چارٹ تیار کر ڈالا۔ تین چار سال بعد بریڈے صاحب انھیں دوبارہ ریڈ کرسچین کالج میں لے آئے۔ 1919 کے آس پاس عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد کے دارالترجمہ سے وابستہ ہوئے اور وہاں پر بہت سی کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔
آپ کو مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ عربی، عبرانی، یونانی، انگریزی، فارسی، ہندی، سنسکرت زبانوں پر اچھا خاصا عبور حاصل تھا۔ منطق و فلسفہ اور ریاضی میں مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مشرقی دسنوی علوم پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔ آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے لیکن بحیثیت ناول نگار آپ کی شہرت نے آپ کے فضل و کمال کے دوسرے پہلوؤں کو دبا لیا۔ شاعری میں مرزا اوج سے اصلاح لیتے تھے جو مرزا دبیر کے شاگرد تھے۔ غالب کے خاص مداح تھے۔ بعد میں مومن کو پسند کرنے لگے تھے۔ حالی، نذیر، محمد حسین آزاد اور شبلی وغیرہ ان کے معاصرین میں تھے۔ مذہبی مناظروں کا بھی شوق رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ یوں تو آپ نے کئی ایک ناول لکھے ہیں لیکن "امراؤ جان ادا" آپ کا شاہ کار ناول ہے۔
چہار شنبہ 21 اکتوبر 1931 کو حیدرآباد میں انتقال فرمایا اور شیعہ قبرستان باغ راجہ مرلی دھر تڑپ بازار، حیدرآباد میں مدفون ہوئے۔
آپ کے مزاج میں استغنا، لاابالی پن اور بے پرواہی حد سے زیادہ تھی۔ اس لیے آپ کا شعری سرمایہ پوری طرح یکجا نہ ہوسکا اور جو یکجا ہوا ، محفوظ نہ رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی تصانیف بھی دستبرد زمانہ کا شکار ہوگئیں۔
تصانیف، تالیفات،تراجم
1۔ امراؤ جان ادا، 1899
2۔ اختری بیگم
3۔ ذات شریف
4۔ بہرام کی رہائی (اخذو ترجمہ)
5۔ شریف زادہ
6۔ خونی عاشق(اخذ و ترجمہ)
7۔ خونی بھیدی (اخذ و ترجمہ)
8۔ خونی شہزادہ (اخذ و ترجمہ)
9۔ خونی جورو (اخذ و ترجمہ)
10۔ خونی مصور (اخذ و ترجمہ)
11۔ لیلیٰ مجنوں (ڈراما)
12۔ انشائے راز (ناتمام)
13۔ ہدیتہ سنیہ (شاہ عبدالعزیز دہلوی کی تحفۂ اثنا عشریہ کا جواب)
مثنویات
1۔ امید و بیم ، 1906
2۔ جنون انتظار
3۔ نو بہار ،1914
غیر مطبوعہ تصانیف
1۔ کلیات اردو
2۔ فطرت الاسلام
3۔ رسالہ در علم النفس
4۔ رسالہ در منطق استقرائی
مآخذ
1۔ مرزا سودا، آدم شیخ، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ ،1968
2۔ بیسویں صدی کے بعد لکھنوی ادیب اپنے تہذیبی پس منظر میں،
مرزا جعفر حسین، اترپردیش، اردو اکادمی، لکھنؤ، 1978، ص 48
3۔ معاصرین، مولانا عبدالماجد دریابادی، مرتبہ حکیم عبدالقوی دریا
بادی، بار اول، 1979، ص 91-94
4۔ مختصر تاریخ ادب اردو، ڈاکٹر سید اعجاز حسین، ترمیم و اضافے:
ڈاکٹر محمد عقیل، جاوید پبلشرز، الہٰ آباد، 1984، ص 346-350
5۔ مصنفین اردو، سید زوار حسین، حالی پبلشنگ ہاؤس، کتاب گھر،
دہلی، جنوری 1939، ص 106-108
6۔ تذکرۂ ماہ و سال، مالک رام، مکتبہ جامعہ، دہلی، طبع اول نومبر
1991، ص 166
7۔ مرزا سودا، علی عباس حسینی، مشمولہ نقوش، لاہور (شخصیات نمبر)،
حصہ اول، جنوری 1955، ص 68-72
8۔ مرزا ہادی رسوا، علی عباس حسینی، ماہ نامہ آج کل، دہلی، مئی 1960
9۔ مراز رسوا: حیات اور کارنامے، میمونہ بیگم، علی گڑھ

No comments:

Post a Comment