Thursday 16 April 2015

تبصرۂ ناول - تبصرہ: جی آر اعوان، پاکستان (از – نوائے وقت ڈوٹ کوم)

تبصرۂ ناول
تبصرہ: جی آر اعوان، پاکستان (از – نوائے وقت ڈوٹ کوم)
’’خانم کی نوچیوں میں یوں تو میرے سوا ہر ایک اچھی تھی، مگر خورشید کا جواب نہ تھا، پری صورت تھی، رنگ میدا شباب، ناک نقشہ گویا ضانع قدرت نے اپنے ہاتھ سے بنایا، ادائوں میں دلفریبی، بھولاپن ایسا جو ایک نظر دیکھے ہزار جان فریفتہ ہو جائے، جس محفل میں بیٹھے، معلوم ہو ایک شمع روشن ہو گئی‘‘۔
یہ سطریں مرزا محمد ہادی رسوا کے ناولامراؤ جان ادا کی ہیں۔ جس میں ا نیسویں صدی کے لکھنو کی سماجی اور ثقافتی جھلک بڑے دلکش انداز میں دکھائی گئی ہے۔ 1885ء میں پیدا ہونے والے مرزا رسوا اپنے زمانے کے خوش فکر شاعر اور ادیب تھے ان کے جد اعلیٰ مرزا رشید شاہی فوج میں ملازم تھے۔ مرزا نے صرف نحو، عربی، فارسی اور ریاضی کی تعلیم اپنے والد آغا محمد تقی سے حاصل کی۔ 1886ء میں پہلا اردو فلسفانہ رسالہ اشراق جاری کیا جو کچھ عرصے بعد بند ہو گیا 1888ء میں ریڈ کرسچین کالج میں عربی اور فارسی کے استاد مقرر ہوئے کیما، ہیت، ریاضی، نجوم، موسیقی اور مذہبی علوم میں تکہ تاز تھے۔
مرزا رسوا ناولوں کی وجہ سے معتبر ہوئے جن میں افشائے راز، ذات شریف، شریف زادہ اختری بیگم اور امراؤ جان ادا قابل ذکر ہیں۔ امراؤ جان ادا مرزا رسوا کو شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ جس کی ہمارے ادب میں تاریخی حیثیت ہے۔ عبدالحلیم شرر کے خیالی قصوں اور ڈپٹی نذیر احمد کی اصلاح پسند تحریروں کے برخلاف مرائو جان ادا نے اردو ناول نگاری میں زندگی کی واقعیت اور فن حسن نگاری کو جنم دیا۔

امراؤ  جان ادا ایک طوائف تھی۔ 1896ء سے 1899ء تک لکھنو میں اسے شہرت حاصل تھی۔ مرزا کو موسیقی اور نغمہ و ساز سے بڑی رغبت تھی۔ امراؤ جان ادا سے راہ و رسم بھی تھی۔ اطراف دہلی کے مکین منشی احمد حسن لکھنو آئے تو کرائے پر لی گئی بیٹھک میں شعر و ادب کی نشست جمانے لگے۔ برابر کے کمرے میں ایک طوائف رہتی تھی۔ جس کی بودباش مختلف تھی۔ دروازوں پر پردے ، آمدروفت نہ ہونے کے برابر، بس ایک دروازہ تھا جہاں سے نوکر چاکر آتے تھے۔ مرزا رسوا منشی احمد حسن کے ہاں اکثر شریک محفل ہوتے ایک روز مرزا نے غزل پڑھی ساتھ والے گھر سے داد آئی، کچھ دیر بعد ایک ’’مہری‘‘ آئی اور کہا بیوی نے مرزا کو بلایا ہے، تامل کا شکار مرزا رسوا کو ساتھیوں کے اصرار پر جانا پڑا، جا کے دیکھا تو وہ امراؤ جان ادا تھی۔
امراؤ جان ادا وہ ناول ہے جس میں احساس نوازی بھی ہے۔ طنز، تشبیہ، شوخی، محاورات، منظر نگاری اور مقصد حیات بھی موجود ہے، زبان کی شگفتگی، دل ربائی، ندرت، بے ساختگی اور مقامی آب و رنگ کی چمک دمک مرزا کے فن کی گواہ ہے۔
یہ ناول 1899ء میں مکمل ہوا۔ منشی گنگا پرشاد ورما برادران پریس لکھنو سے شائع ہوا۔ آج کل دستیاب ناول میں زبان و بیان کی غلطیوں کی شکایات عام دیکھ کر ظہیر فتح پوری کی ترتیب سے ستمبر 2014ء میں ایک بار پھر شائع کیا گیا۔ ناشر ڈاکٹر تحسین فراقی نے نظام مجلس ترقی ادب لاہور کے زیر اہتمام شرکت پر نٹنگ پریس نسبت روڈ سے شائع کیا ہے۔ 300 روپے قیمت والی یہ کتاب محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب کے تعاون سے شائع ہوئی۔

No comments:

Post a Comment