Monday 21 September 2015

امراؤ جان ادا

           مرزا محمد ہادی رسوا کا شہرہ آفاق ناول امراؤ جان ادا آج بھی اردو کے عظیم ترین ناولوں میں سے ایک ہے جو اسلوب نگارش مرزا رسوا نے اس ناول میں پیش کیا اس کی دوسری مثال دینا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کردار نگاری بھی انتہائی قابل تحسین ہے۔ ان گنت فنی محاسن کی بات اپنی جگہ، اس ناول کا موضوع بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک عورت کی مظلومیت کی داستان ہے۔ جبر مسلسل کی وہ کہانی جس کے کسی موڑ پر سکھ کا کوئی نشان نہیں۔ ایک ایسی زندگی جس میں آزمائشیں تو ہیں لیکن ساری بے ثمر۔ ایسی حیات کہ نامرادی اور درد و الم جس کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ یہ ناول 1899ء میں لکھا گیا۔ اس میں انیسویں صدی کے لکھنؤ کی سماجی اور ثقافتی زندگی بڑے دلکش انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ناول کے تمام کردار اتنے جاندار ہیں کہ وہ قاری کے ذہن میں وہ فضا بنا دیتے ہیں جس میں وہ خود سانس لے رہے ہیں۔ اس ناول کے بے شمار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور یہ آج بھی اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے۔
        ناول کا اسلوب نیم ڈرامائی ہے جس میں امراؤ ان ادا مرزا رسوا کو اپنی سرگزشت سنا رہی ہے۔ امراؤ کے مطابق اس کا اصلی نام امیرن تھا اور وہ فیض آباد کی رہنے والی تھی۔ اس کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے تھا۔ اس کے علاقے کا ایک بدقماش شخص دلاور خان نے اسے اغوا کیا اور پھر لکھنٔو کے ایک بالاخانے میں خانم جان کے ہاتھ فروخت کردیا اورپھر اس کا نام امراؤ جان رکھ دیا گیا، دلاور خان کی امیرن کے باپ کے ساتھ پرانی عداوت تھی جس نے انتقام کے طور پر امیرن کو اغوا کیا۔ لکھنٔو کے بالاخانے میں امیرن جوان ہوئی وہ ایک بہترین رقاصہ اور شاعرہ بن گئی۔ بہت سے نواب اس کے حسن و جمال اور ادائوں پر فریفتہ ہوگئے لیکن وہ خود نواب سلطان کے عشق میں گرفتار ہوگئی ہے اور یہی حال نواب سلطان کا تھا لیکن نواب سلطان اپنی خاندانی مجبوریوں کے باعث امراؤ جان سے شادی کرنے سے قاصر تھا۔ نواب سلطان کے باپ نے اس کی شادی کہیں اور کر دی۔ اب امراؤ جان کو ایک ڈاکو فیض علی سے محبت ہو گئی۔ وہ اس آرزو میں فیض علی کے ساتھ بھاگ گئی کہ وہ اس سے شادی کر لے گا لیکن فیض علی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد وہ پھر اکیلی رہ گئی۔امراؤ جان نے لکھنٔو میں نواب واجد علی خان کے دربار میں بھی مجرا کیا تھا۔ جب انگریزوں نے لکھنٔو کا محاصرہ کرلیا تو وہ فیض آباد چلی گئی۔ فیض آباد میں بھی اس نے مجرا کیا اور یہ جگہ اسے دیکھی بھالی معلوم ہوئی۔ خوش بختی سے وہ اپنے گھر جا پہنچی جہاں اسے یہ علم ہوا کہ اس کا باپ اس دنیا میں نہیں رہا۔ البتہ اس کی ماں اور بھائی زندہ تھے۔ ماں نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا۔ اسے پتہ چل گیا کہ اس کی بیٹی نے دکھ کے کتنے کانٹے سمیٹے لیکن یہاں امراؤ جان کو ایک اور بڑے دکھ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بھائی نے اسے بہن ماننے سے انکار کردیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایک طوائف تھی۔ وہ ناہنجار اس حقیقت کو فراموش کر گیا کہ امیرن نے کیا یہ پیشہ اپنی مرضی سے اختیار کیا تھا۔ وہ تو حالات کی ستم کاریاں تھیں جس نے ایک کمسن لڑکی کو خانم جان کے بالاخانے پر پہنچا دیا۔ امراؤ جان مایوسی کا مجسمہ بنی واپس لکھنٔو کے بالاخانے چلی گئی جو اب اجڑ چکا تھا۔ اس بدنصیب عورت نے اپنی باقی ماندہ زندگی اسی بالاخانے پر گزار دی۔ اس کے پاس اب صرف اس کی یادیں اور خوبصورت شاعری تھی۔ کیا کیا ستم اس عورت نے سہے، یہ پڑھ کر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔ ایک نواب محمود علی خان ہی کیا کم تھا جس نے امراؤ جان سے زبردستی شادی کرنے کی کوشش کی لیکن پھر ناکامی پر عدالت میں مقدمہ دائر کردیا اس نے دعویٰ کیا کہ امراؤ جان اس کی منکوحہ ہے۔ امراؤ جان کو 6 سال تک یہ مقدمہ بھگتنا پڑا۔ ناول کے اختتام پر امراؤ جان دوسری طوائفوں سے کہتی ہے ’’بے وقوف رنڈی کبھی اس بھلاوے میں نہ رہنا کہ کوئی تمہیں سچے دل سے چاہے گا۔ تیرا آشنا تجھ سے ہمیشہ کیلئے نباہ نہیں کرسکتا۔ سچی چاہت کا حق اسی نیک بخت کو ہے جو ایک کا منہ دیکھ کر دوسرے کا منہ کبھی نہ دیکھے۔‘‘ دراصل یہی وہ حقیقت ہے جس کا سامنا طوائف کو ازل سے ہے۔ جو اس ابدی حقیقت کو شروع سے ہی قبول کرلیتی ہے وہ زندگی کے کئی دکھوں سے آزاد ہوجاتی ہے ورگرنہ انجام سب کا وہی ہوا، جوامراؤ جان کا ہوا۔
      اس ناول پر اب تک4 فلمیں بن چکی ہیں۔ سب سے پہلے ایس ایم یوسف نے 1958ء میں’’ مہندی‘‘ بنائی، پھر 1973ء میں پاکستان کے نامور ہدایت کار حسن طارق نے ’’امراؤ جان ادا‘‘ کو سلو لائیڈ کے فیتے پر منتقل کیا۔ ہندوستان میں مظفر علی نے 1981ء میں اس ناول کو فلم کی شکل میں دی اور پھر 2006ء میں جے پی دتہ نے بھی اس ناول پر فلم بنا ڈالی۔ پاکستان میں بننے والی ’’امراؤ جان ادا‘‘ کو ملک کی بہترین فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔
        یہ فلم حسن طارق نے 1973ء میں بنائی جو ملک کے ہر حصے میں سپرہٹ ہوئی۔ یہ فلم طویل عرصے تک سنیمائوں کی زینت بنی رہی۔ اس فلم میں رانی نے امرائو جان ادا کا کردار ادا کیا اور بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ نواب سلطان کے روپ میں شاہد نے بھی قابل تحسین کارکردگی دکھائی۔ رنگیلا، علائوالدین، نیّرسلطانہ اور آغا طالش نے بھی باکمال اداکاری کی۔ اس فلم کے گیت معروف شاعر سیف الدین سیف نے تخلیق کیے تھے اور یہ اتنے شاندار تھے جن کی آج بھی توصیف کی جاتی ہے۔ سیف الدین سیف نے بے شمار اردو اور پنجابی گیت لکھے اور نغمہ نگاری میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ نثار بزمی کی دلکش دھنیں سونے پر سہاگہ ثابت ہوئیں اور انہوں نے اپنے فن کی دھاک جما دی۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کے ایک گیت کے علاوہ باقی تمام گیت رونا لیلیٰ نے گائے۔ اس فلم کو رونا لیلیٰ کے فن کی معراج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان دو گیتوں نے تو حشر بپا کردیا… وہ کچھ یوں تھے ’’کاٹے نہ کٹے رے رتیا‘‘ اور ’’نجانے کس لیے ہم پر قیامت ڈھائی جاتی ہے‘‘ فلم کا آخری گیت میڈم نورجہاں نے گایا اور یہ گانا امر ہوگیا۔ ؎ ’’جو بچا تھا وہ لٹانے کیلئے آئے ہیں‘‘ حسن طارق کی امراؤ جان ادا اپنی گوناں گوں خوبیوں کی بناء پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی لیکن یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ یہ فلم ناول کے مطابق نہیں بنائی گئی۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ نواب سلطان امراؤ جان سے شادی کرلیتا ہے اور امراؤ جان اس کے بچے کی ماں بھی بن جاتی ہے۔ نواب سلطان کا خاندان اس شادی کو قبول نہیں کرتا۔ فلم کے آخر میں وہ نواب سلطان کے گھر مجرا کرتی ہے اور پھر نواب سلطان کے ہاتھوں میں دم توڑ دیتی ہے۔ ناول کے مطابق امراؤ جان اپنے دامن میں نامرادیوں کے کانٹے لیے دوبارہ لکھنٔو چلی جاتی ہے اور پھر زندگی کے باقی دن اسی بالاخانے پر گزارتی ہے جہاں کم سنی میں اسے اغواء کرکے لایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے حسن طارق نے کمرشل تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے یہ سب تبدیلیاں کی ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم کا اختتام انتہائی متاثرکن تھا۔
         رانی نے بے شمار اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی شاندار اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ ایک حسین اور پرکشش اداکارہ تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت اچھی اداکارہ بھی تھیں۔ ان کی یادگار اردو فلموں میں بہن بھائی، بہارو پھول برسائو، تہذیب، انجمن، میرا گھر میری جنت اور ناگ منی شامل ہیں لیکن امرائو جان ادا میں انہوں نے لافانی اداکاری کی۔ رانی ایک عمدہ رقاصہ بھی تھیں۔ انہوں نے کئی اردو اور پنجابی فلموں میں اپنے دلفریب رقص سے شائقین فلم سے بے پناہ داد سمیٹی۔ رانی کے سابق شوہر سرفراز نواز 80 ء کی دہائی میں انڈیا گئے تو وہاں انہوں نے بالی وڈ اداکارہ ریکھا سے بھی ملاقات کی۔ ریکھا نے سرفراز کو بتایا کہ وہ پاکستانی امرائو جان ادا سے بہت متاثر ہیں اور ان کی دانست میں رانی نے ان سے زیادہ جاندار اداکاری کی ہے۔
       1981ء میں مظفر علی نے انڈیا میں ’’امراؤ جان‘‘ بنائی۔ اس فلم نے بھی بہت ہلچل پیدا کی۔ اس فلم کے مکالمے اور سکرین پلے مظفر علی جاوید صدیقی اور شمع زیدی نے تحریر کیے جبکہ ریکھا، فاروق شیخ اور نصیرالدین شاہ نے مرکزی کردار ادا کیے۔ یہ فلم تقریباً ناول کے عین مطابق بنائی گئی۔ نواب سلطان (فاروق شیخ) سے عشق میں ناکامی کے بعد امرا ئوجان ایک ڈاکو فیض علی کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے، وہ اس آرزو میں فیض علی کے ساتھ بھاگ جاتی ہے کہ وہ اس سے شادی کرلے گا لیکن فیض علی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد وہ پھر اکیلی رہ جاتی ہے۔ وہ فیض آباد جاتی ہے جہاں وہ اپنی ماں اور بھائی سے ملتی ہے۔ لیکن تقدیر کی ستم ظریفی یہاں بھی امرائو جان کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور اس کا بھائی اسے اپنی بہن ماننے سے انکار کردیتا ہے۔ اس فلم کی موسیقی بے بدل موسیقار خیام نے ترتیب دی تھی اور اپنی زبردست دھنوں سے سب کو ششدر کردیا۔ ویسے تو خیام امرائو جان سے بہت پہلے اپنے آپ کو ایک منفرد سنگیت کار کی حیثیت سے منوا چکے تھے اور 1980ء میں ’’رضیہ سلطان‘‘ میں ان کے سنگیت نے ہر طرف دھوم مچا دی تھی۔ اس سے پہلے ’’فٹ پاتھ‘‘، ’’آخری خط‘‘،’’ کبھی کبھی‘‘ اور’’ ترشول‘‘ کا سنگیت برصغیر پاک و ہند میں مقبولیت کی تمام حدیں پار کر چکا تھا۔ امرائو جان کے گیت شہریار نے تخلیق کیے اور انہوں نے بھی اپنی تخلیقی قوتوں کا زبردست مظاہرہ کیا۔ آشا بھونسلے کی غزلیں اس فلم کے ماتھے کا جھومر تھیں۔ اس فلم کے گیتوں کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ خاص طور پر ’’ان آنکھوں کی مستی میں، یہ کیا جگہ ہے دوستو اور دل چیز کیا ہے آپ میری‘‘ جیسے نغمات نے تو سحر طاری کردیا۔ فلم میں فاروق شیخ نے نواب سلطان اور نصیرالدین شاہ نے گوہر مرزا کے کردار بڑی خوبصورتی سے نبھائے۔ راج ببر نے ڈکیت فیض علی کا کردار احسن طریقے سے ادا کیا۔ فلم کی ایک اور خاص بات خانم جان کا کردارتھا جو شوکت اعظمی نے ادا کیا۔ شوکت اعظمی ہندوستان کے ممتاز شاعر کیفی اعظمی کی اہلیہ اور شبانہ اعظمی کی والدہ تھیں۔ مظفر علی نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے خانم جان کا کردار شوکت اعظمی سے کرایا اور ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ ایسا ہی ایک کام ششی کپور نے بھی کیا تھا۔ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ فلم ’’جنون‘‘ میں معروف افسانہ نگار اور ناول نویس عصمت چغتائی کو ایک چھوٹے سے کردار کیلئے کاسٹ کیا تھا۔ فلم میں ریکھا کی اداکاری کو بے حد سراہا گیا۔ اس سے پہلے 1979ء میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم ’’مقدر کا سکندر‘‘ میں بھی ریکھا نے طوائف کا کردار ادا کیا تھا اور اپنی لاجواب اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے تھے لیکن ’’امرائو جان ‘‘ ریکھا کی وہ عدیم النظیر فلم ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ریکھا کے رقص بھی لاجواب تھے۔ چہرے کے تاثرات اور مکالموں کی ادائیگی کے خوبصورت انداز نے ریکھا کے اس کردار کو امر کردیا۔ یہ فلم اگر ریکھا کی سب سے بہترین فلم نہیں تو ان کی چند بہترین فلموں میں سے ایک ضرور ہے۔ حسن طارق کی طرح مظفر علی کی ہدایت کار کو بھی بہت سراہا گیا۔ اس فلم نے بہت اچھا بزنس کیا۔
          2006ء میں ریلیز ہونے والی ’’امراؤ جان‘‘ میں ایشوریا رائے نے مرکزی کردار ادا کیا۔ نواب سلطان بنے تھے ابھیشک بچن اور فیض علی ڈکیت کے روپ میں سامنے آئے سنیل شیٹی۔ گوہر مرزا کا کرداریو راج کمار نے نبھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم میں خانم جان کا کردار شبانہ اعظمی نے ادا کیا۔ مظفر علی کی فلم ’’امراؤ جان‘‘ میں یہی کردار شبانہ اعظمی کی والدہ شوکت اعظمی ادا کر چکی تھیں۔ فلم کی ہدایت کاری کے فرائض جے پی دتہ نے سرانجام دیئے اور گیت جاوید اختر نے لکھے۔ اس فلم کی موسیقی انو ملک نے دی۔ فلم کے 9گانے تھے جن میں2 بہت ہٹ ہوئے۔ وہ کچھ یوں تھے: ’’ایک ٹوٹے ہوئے دل کی‘‘، ’’پہلے پہل‘‘ یہ فلم باکس آفس پر اتنی کامیاب نہ ہوسکی جتنی توقع کی جارہی تھی۔ جے پی دتہ کی ہدایت کاری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ فلم کی غیر ضروری طوالت کو بھی سخت ناپسند کیا گیا۔ انو ملک کا میوزک اچھا تھا لیکن خیام کا مقابلہ کہاں؟ جاوید اختر کی شاعری پسند کی گئی۔ ہندوستان کے تمام ممتاز اخبارات نے لکھا کہ اس فلم میں صرف ایشوریا رائے اور شبانہ اعظمی کی اداکاری متاثر کن ہے۔ اگرچہ نقادوں نے ریکھا اور ایشوریا رائے کی اداکاری کا تقابلی جائزہ نہیں لیا لیکن اس بات پر سب متفق تھے کہ ریکھا کا پلڑا تھوڑا سا بھاری ہے۔ ایشوریا رائے نے اس فلم میں بہت محنت سے کام کیا تھا اور اداکاری کے لحاظ سے یہ ان کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔ فلم کی سنیما ٹو گرافی اوسط درجے کی تھی البتہ مکالمے جاندار تھے۔ اور کچھ ہو یا نہ ہو، امراؤ جان ادا پر بننے والی اس فلم میں بھی مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ (ایشوریا رائے) دادو تحسین کے حوالے سے سب سے آگے رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امراؤ جان ادا کا کردار انتہائی مشکل تھا لیکن رانی، ریکھا اور ایشوریا رائے نے جتنی محنت اور لگن سے اسے نبھایا، اس پر ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ 
٭٭٭