Tuesday, 15 December 2015

مرزا محمد ہادی رسوا از علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن

مرزا محمد ہادی رسوا
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹ : وہ مرزا محمد ہادی رسوا تھے جنہوں نے اردو ناول کو گھر کی چار دیواری سے باہر لاکر لکھنؤ چوک کی سیر کرائی تھی۔ کوٹھیوں سے پھوٹتی روشنی دکھائی تھی جہاں طبلہ پر ہاتھ کا تھرکنا، شہنائی کا بجنا، سجنا سنورنا، پازیب کی جھنکار، گھنگھروؤں کی چھم چھم، وہ چتونوں کا ناچنا وہ چوٹی کا لٹکنا ، وہ چوڑیوں کا کھنکنا، واہ واہ کی صدائیں، وہ امیروں کا ٹھاٹ اور رئیسوں کا زوال، غرض سب کچھ اردو ناول اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اردو ناول نے رسوا کے اس طرزتربیت کوقبول کیا اور اپنے جسم سے داستانوں کے بوسیدہ کپڑے اتارپھینکے اور فکروفن کا خوش رنگ لباس زیب تن کیا۔ ۔ ۔ ۔
مرزا رسوا کی شخصیت اور ان کے فکرو فن پر محترم علامہ اعجازفرخ کا دلچسپ مضمون پیشِ خدمت ہے۔(ج ا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی فنکار اپنے ظاہر سے نہیں پہچانا جاسکتا، بلکہ حقیقی فنکار تو اس کے اندر کا چھپا ہوا وجود ہے، جو ہر لمحہ تخلیق کا مطالبہ کرتا ہے۔کسی بھی فنکار کو پرکھنے کی کسوٹی درحقیقت اس کا فن ہی ہے،جس کے وسیلے سے اندر کے فنکار کی پوشیدہ صلاحیتوں کاپتہ چلتاہے، لیکن فن کے نقاد کے لئے یہ کوئی آسان مرحلہ بھی نہیں ہے، اس لئے کہ احساس کی نازک پرت کو الٹ کر اس کی حسیت کو محسوس کرنے کے لئے کوئی سائنسی پیمانہ ایجاد نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی علم الحساب کا کلیہ کہ جس کی رو سے ناپ تول کر فن کی قامت و قیمت‘ اس کی کمیت وحجم کو پیش کیا جاسکے۔اس کے لے تو خود ایک بصیرت و آگہی کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس اندر کے فنکار کے ساتھ سفر کرسکے۔یہ سفر کبھی ایک لمحہ سے بھی کچھ کم میں صدیوں کی مسافت طے کرلیتا ہے اور کہیں اس کے اندر کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر خود اپنے آپ کو کھودیتا ہے۔
ایک بلند پایہ فنکار کے لئے یہی ایک لازمی عنصر ہے کہ وہ اپنے اندر کے فنکار کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے وجود کی پوری سا لمیت کے ساتھ تخلیق آمادہ ہو تو اس تخلیق کے لمحے میں فنکار کی سماعت بند ہوجاتی ہے۔وہ خارج سے بے نیاز ہوکر تخلیق کے لمحے میں فنکار کی سماعت بند ہوجاتی ہے۔وہ خارج سے بے نیاز ہوکر تخلیق کے کرب سے گزرتا ہے، لیکن اپنے شاہکار کی تکمیل اسے ایک ایسی آسودگی سے سرشار کردیتی ہے کہ ایک تخلیق کے بعد وہ خود نقاد بن کر ان خامیو کی نشاندہی کرتا ہوا اس سے بہتر تخلیق کے لئیاندرونی تیاری میں مصروف ہوجاتا ہے۔یہ وقفہ کوئی جمود کا وقفہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کی سیر ذات اور سیر کائنات کا وقفہ ہوتا ہے۔ایک حقیقی فنکار اپنے فن کی بلندی پر صلہ اور ستائش سے بے نیاز ہوجاتا ہے ، اس لئے کہ ستائش پر مسرت کا اظہار اور تقریض پر مایوسی کم ظرفی کی علامتہے۔ایک اعلی فنکار کو نہ صرف اپنے فن کا ادراک حاصل رہتا ہے، بلکہ اس کی ذاتی آسودگی ہی اس کی اعلی ترین ستائش ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شہرت پسند اپنی کم مائیگی کی وجہ سے اندھوں سے اپنے رقص کی داد پائیں، بہروں کو بھیرویں سنا کر ستائش حاصل کریں، پست بونوں کے درمیان کھڑے ہوکر اپنی قد آوری کا دعویٰ کریں، لیکن شہر دل کوئی نابیناؤں کا شہر نہں ہوتا،جہاں آئینے بیچ کر جذبوں کی تجارت کی جاسکے۔اظہار کے وسائل میں رنگ ، آواز ،نقاشی اور لفظ ترسیل وابلاغ کے اہم وسائل ہیں، لیکن الفاظ کا فنکار ایک ایسا نازک فنکار ہوتا ہے کہ وہ جذبوں کی تپش کے اعتبار سے الفاظ کا انتخاب کرسکے۔لفظ کے قالب میں خیال پیرہن گل میں خوشبو کی طرح کہ ہوا کلی کو چوم کر جگائے تو اس سے تو پردہ کرے کہ ہوا کی آوارگی اسے رسوا نہ کرپائے اور شبنم کی بوندے یوں خنکی کو جذب کرے کہ خود خوشبو کے بدن سے اٹھتی ہوئی لپیٹ نہاں بھی ہو عیا ں بھی ہو۔الفاظ کے فنکار کے لئے یہ انتخاب اس کی صلاحیت کے قرینے کا ثبوت ہے اور یہ فن کسی کشکول بدست کے بس کا نہیں، وہ تو صرف حسد ہی کرسکتا ہے، جب کہ اعلی فنکار محسودہوتا ہے حاسد نہیں ہوتا۔
مرزا محمد ہادی رسوا کا شمار بھی ایسے ہی اعلی فنکاروں میں ہے، ان کی زندگی کے نہاں خانوں کی سیر رسواؔ کے اندر کی کائنات کے کئی راز منکشف کرتی ہے۔سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ زندگی کے عرصے میں لگتا ہے کہ خود رسواؔ نے اپنے آپ کو تلاش کرنے میں ایک مدت طویل صرف کی ہے اور اس پر طرفہ ستم یہ بھی ہوا کہ زمانے کو مرزا محمد ہادی رسوا یاد بھی رہے تو ان کی ایک تخلیق امراؤ جان کی وجہ سے یاد رکھے گئے۔امراؤ جان۱۸۸۹ء کی اشاعت ہے۔اس وقت رسواء کا سن تقریباً۱۴ برس تھا۔میری نظر میں امراؤ جان اور، مرزا محمد ہادی رسوا کا آئینہ خانہ ہے۔جس میں لکھنؤ کے معاشرے اور اس کی تہذیب کا ہر عکس نہایت موزونیت کے ساتھ موجود ہے اور یہ اس وقت کا معاشرہ ہے، جب لکھنؤ کی تہذیب زوال آمادہ تھی۔کچھ برباد لکھنؤ کی پرچھائیاں،ناآسودہ جذبات کا تلاطم اور پھر رسوا کا انداز بیان ،ان سب عناصر کے قوام نے امراؤ جان کو اس حد تک دلکش نظر آئے کہ کوئی انجینئر فلسفی بھی ہو، یا کوئی فلسفی افسانہ نگار، داستان گویا شاعر بھی ہو، یا کوئی فنکار فلسفہ اور منطق کی مشکل کتابوں کا مترجم بھی ہو، یا یہی فلسفی مترجم اور انجینئر موسیقی کی راگ راگنیوں میں اتنا رسوخ پیدا کرے کہ نہ صرف ان کے نازک فرق کو محسوس کرسکے، بلکہ اس فرق کے ساتھ راگ ،راگنی،سرتال الاپ کو ضبط تحریر میں بھی لاسکے۔ان علامتوں کے ذریعہ ان کے درمیانی فرق کو نہ صرف واضح کیا جائے، بلکہ یہ کیف و کم محسوس کی حدود میں داخل ہو جائے۔چنانچہ مرزا محمدہادی رسواؔ کی زندگی میں نہ صرف یہ تمام شعبے ملتے ہیں، بلکہ جس شعبہ کو انہوں نے صرف چھولیا اسے مالا مال کردیا۔
پہلی جنگ آزادی کے تقریباً ایک سال بعد۱۸۵۸ء مرزا محمد ہادی رسوا کی سن ولادت ہے۔ان کے والد مرزا محمد تقی آصف الدولہ کی فوج میں اعلی عہدہ دار رہے۔چنانچہ علمی ذوق رسوا کو ورثہ میں ملا۔ان کی والدہ کا سلسلہ ننھیالی اعتبار سے طبا طبائی ہے۔کم عمری ہی میں ماں کے آنچل کی چھاؤں سے محروم ہوئے تو پندرہ برس کی عمر میں سایہ پدری بھی سر سے اٹھ گیا۔گویا:
گھر سے نکلے تو وہی دھوپ کھڑی تھی جامیؔ
ہم نے سوچا تھا بہاروں نے بلایا ہوگا
جاگیر،جائیداد سب رشتہ داروں نے غصب کرلئے۔کچھ دن ننھیال میں رہے تو روکھی سوکھی بھی سوطعنوں کے ساتھ ملتی تھی۔رسوا کو یہ رسوائی گوارہ نہ تھی، سو لکھنؤ چلے آئے۔جوکچھ بچ رہا تھا اسے بیچ کر تعلیم حاصل کی۔اوائل عمری میں عربی،فارسی،ریاضی اور نجوم اپنے والد سے سیکھا تو شرح جامی کا درس اس وقت کے نامور استاد مولوی محمد یحییٰ سے حاصل کیا۔مولوی کمال الدین نے فلسفہ اور منطق میں طاق کیا۔لیکن انگریزی کے استاد خود مرزا محمد رسوا رہے۔انہوں نے یہ زبان خود سیکھی۔ویسے تو رسوا کو کسی بھی علم حاصل کرنے کی سوجھی تو جب تک اس میں رسوخ نہ حاصل کرلیا، اسی کے ہورہے۔لیکن انگریزی سیکھنے میں ان کی ایک غرض وغایت یہ بھی تھی کہ انہیں کیمیا سے بڑی دلچسپی تھی اور اس زمانے میں کیمیا کی کتابیں ہندوستان میں دستیاب نہیں تھیں۔وہ یہ کتابیں لندن سے منگوایا کرتے تھے اور ا س کی خاطر انہوں نے انگریزی سیکھی۔۱۹۸۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں بی اے کرنے کے بعد یکایک رسوا کو نہ جانے کیا سوجھی کہ رڑ کی کے انجینئر نگ کالج میں اوورسیئر کا امتحان کامیاب کیا اور ریلوے میں بحیثیت سرویر ملاز م ہوئے۔کوئٹہ کی ریلوے لائن اسکے درمیانی ریلوے اسٹیشن کے نقشے ریلوے لائن کے پیچ وخم رسوا نے اس وقتT Odoliteکے ذریعہ اس نزاکت اور اہتمام سے قائم کئے تھے کہ جہاں موڑ آتے وہاں علم ریاضی میںTrignometryکے ضابطوں کی روشنی میں انہوں نے ریل کی رفتار مقرر کرکے ریلوے لائن میںSuperelevationقائم کئے۔وہ اگر اس فن کو جاری رکھتے تو نہ جانے اور کیا کر گزرتے۔ریل میں ایک سفر کے دوران مرزا ہادی نے محسوس کیا کہ ریل کی رفتار جب یکساں رہتی ہے تو ریل کے پہیوں کی پٹریوں پر آواز ایک مخصوصRhythmپیدا کرتی ہے،جس میں موسیقیت پائی جاتی ہے۔اس ذرا سی اپج نے مرزا ہادی رسوا کو فن موسیقی کی طرف راغب کیا تو انہوں نے تقریباً تین سوراگ اور راگنیوں پر عبور حاصل کیا اور اس پرطرفہ یہ بھی کہ انگریزی موسیقی کےNotationsکی طرح ہندوستانی موسیقی کےNotationsتیار کئے،جو آج بھی موسیقاروں کے اسٹینڈ پر آویزاں نظر آتے ہیں۔کوئٹہ میں مرزا ہادی کا ایک مکان تھا‘ اسے فروخت کرکے لکھنؤ چلے آئے تو کرسچن کالج لکھنؤ میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے۔ویسے استاد تو فارسی کے مقرر ہوئے،لیکن علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ تاریخ، منطق ،فلسفہ،ریاضی،نفسیات،جس موضوع پر گفتگو کرتے نہ صرف طلبہ بلکہ بڑے بڑے اساتذہ رشک کیا کرتے۔ایک شاعری چھوٹ رہی تھی، سو مرزا محمد ہادی اسی کے عشق میں رسواؔ ہوئے۔زبان تو یوں بھی جو کہہ دیا سو لغت بنی، لیکن رسوانے عروس سخن کو یوں سنوارا کہ فصاحت کا جھومر،طلاقت کا نوسرہار،بلاغت کے کنگن،معنی آفرینی کے بازوبند،محاوروں کی چوڑیاں،تراکیب کی انگشتریاں، صنائع کی پازیب اور تشبیہات کے نورتن کی نتھ اسے زیب دے گئے۔اس پر مستزادیہ کہ ابتداء میں مرثیہ کے مشہور شاعر مرزا دبیر سے اصلاح لی،لیکن خود مرزا دبیر نے ان کے رنگ سخن کو دیکھ کرانھیں محمد جعفر اوج کے سپرد کیا تو ان سے مشورہ سخن بھی شامل رہا۔
رسوا کی طبیعت میں بے نیازی بہت زیادہ تھی۔کالج میں ملازمت کے دوران بھی ان کی غیر حاضریاں اکثر ہوجایا کرتیں، لیکن رسواؔ اس امر سے بے نیاز ہوکر کہ تنخواہ کیا ملے گی اور گزر بسر کیسے ہوگی، وہ اپنے کتب خانے میں گم اور مطالعے میں غرق رہا کرتے تھے۔یہ بات شاید افسانوی محسوس ہو، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک مرتبہ درون خانہ سے رسوا کو رونے کی آوازیں سنائی دیں۔دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ بچہ دنیا سے گزر گیا ۔اپنے ایک دوست کو کچھ روپے دے کر تدفین کا انتظام کروایا اور خود مطالعہ میں غرق ہوگئے۔یہ ان کے فنافی العلم ہونے کی علامت ہے۔رسوابہت زیادہ نازک مزاج تھے۔ان کی طبع حباب کی سی تھی۔مزاج میں تلون ایسا کہ کبھی نسیم سحری چھوجائے تو تاب نہ لاکر ٹوٹ جائیں تو کبھی نکہت باد بہاری سے خفا۔لیکن اسی رسوا کو دُنیا نے حوادث کے طوفان سے بھی ٹکراتے دیکھا۔بس مزاج کی بات تھی جو سماگئی۔سنگ و چنگ کا یہ آہنگ نہ دیکھا نہ سنا۔وہ ہر فن میں اعلیٰ درجہ کے فنکار تھے، اس لئے منتقم نہ ہوئے۔قوت برداشت ختم ہوگئی تو خودپر اتنے برہم ہوئے کہ اپنے ہاتھوں اپنے ہی آنسوؤں کا سوتا خشک کردیا۔ان کی غیور طبیعت کی وجہ سے وہ ذراسی ٹھیس بھی نہ برداشت کرپاتے اور یوں محفل سے اٹھ جاتے جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے۔
رسوا نے زندگی آئینہ خانہ سجانے میں صرف کی، ان کے آئینہ خانے کا عیب یہ تھا کہ وہ مقابل کے چہرے کی نقاب اتار دیتاتھا اور حقیقی چہرہ دکھائی دیتا۔آئینہ اور پتھر کا تو ہمیشہ سے ساتھ ہے، ٹوٹ نہ جائے تو آئینہ کیا اور نہ برسے تو پتھر کیسا؟ لیکن سنگ بدست یہ نہیں جانتا کہ آئینہ ٹوٹ کر فنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ہر ٹکڑاخود ایک مکمل آئینہ بن جاتا ہے۔پہلے آئینے میں ایک چہرہ دکھائی دیتا تھا تو بکھرے ہوئے آئینوں میں ہزار زاویوں سے ہزار چہرے دکھائی دیتے ہیں۔یہی پتھر کی شکست اور آئینہ کی فتح ہے۔شاید اسی لئے اقبال نے بھی کہا تھا کہ:
نہ بچا کے تو رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر، ہے نگاہ آئینہ ساز میں
شاید یہی وجہ تھی کہ رسوا کے پندار کا آئینہ تو ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر تا رہا، لیکن ان کے خیال کے آئینہ پر کوئی لکیر بھی نہ آسکی اور نہ اس کو کبھی زنگ لگا۔ان کی صلاحیتوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔اپنی شعری اور نثری تخلیقات بیشتر انہوں نے کاسہ بدست قطاروں میں بانٹ دیں اور ان ہی سے پتھر بھی کھائے۔کبھی کبھی اپنی ضرورت کے تئیں انہوں نے انگریزی ناولوں کے ترجمے ناشرین کو ارزاں داموں بیچ دیئے اور پھر گھر پھونک کر تماشہ دیکھنے بیٹھ گئے۔انگریزی ناولوں کے تراجم میں جاسوسی ناولوں کے ترجموں کا سہرا رسوا کے سر جاتا ہے۔خونی مصور، بہرام کی رہائی،خونی شہزادہ اور دیگر کئی ترجمے مشہور ہوئے۔بعد میں تیرتھ رام فیروزپوری اور مظہر الحق علوی نے بھی اس روش کو اپنایا۔
۶۰ سال کی عمر میں رسوا کرسچن کالج لکھنؤ سے سبکدوش ہوئے، لیکن ہنوز ذوق سفر جاری تھا۔حیدرآباد میں دارالترجمہ کے قیام کے بعد مولانا عبدالماجد دریابادی بھی مترجمین میں شامل تھے، لیکن ایک سال بعد انہوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی۔ا ن کی جگہ پر کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہار شائع کئے گئے۔رسوا نے بھی اپنی درخواست کے ساتھ تراجم منسلک کئے اور ناظم دارالترجمہ نے رائے ظاہر کی کہ پروفیسر مرزا محمد ہادی چوں کہ مشہور نثر نگار، اعلی پایہ کے انشاء پرداز اور شاعر ہیں۔علاوہ امیں فلسفہ کے بی اے بھی ہیں، ان کا تقرر ہر حیثیت سے مفید ہوگا۔یہ تحریک۱۳؍جولائی۱۹۱۹ء کو آصف سابع کے حضور پیش ہوئی ۔علائم سے پتہ چلتا ہے کہ رسوا کو تین سو روپیہ ماہوار پر تامل تھا،اس لئے وہ چار سو روپیہ ماہوار کے خواہش مند تھے۔چنانچہ رسوا کا تقرر چار سو روپیہ ماہوار پر یوں قرار پایا کہ تین سوروپیہ تنخواہ اور سو روپیہ پرسنل الاؤنس کے طور پر ادا کئے جائیں ونیز ان کی قابلیت کی بنیاد پر عمر اور ملکی صداقت نامہ سے استثناء بھی دیا گیا اور یوں مزار رسوا ۱۸؍ اگست۱۹۱۹ء کو رجوع بکار ہوئے۔دارالترجمہ میں عبداللہ عمادی ،علی حیدر نظم طباطبائی،مرزا محمد ہادی رسوا، جوش ملیح آبادی کے علاوہ مولوی عبدالحق بھی جامعہ عثمانیہ سے وابستہ رہے۔۱۹۱۷ء میں وہ دارالترجمہ کے نگران بھی مقرر کئے گئے۔رسوا کو دو مرتبہ ناظر ادب کی حیثیت سے ترقی کے مواقع میسر آئے۔ایک مرتبہ جب علی حیدر نظم طبا طبائی وظیفہ پر سبکدوش ہوئے، لیکن نظام نے ان کو اپنے فرمان کے ذریعہ پھر سے بحال کیا۔دوسری مرتبہ جب وہ قطعاً سبکدوش ہوئے تو اس وقت جوش ملیح آبادی کے نام کی سفارش ہوئی۔ہر چند کہ رسوا کو ان پر تفوق حاصل تھا، لیکن وہ علمی کام جو رسوا انجام دے رہے تھے، اس کی تکمیل کے لئے ان کی یافت میں تو اضافہ کردیا گیا ،لیکن عہدہ مترجم درجہ اول کی حیثیت سے برقرار رہا۔جوش،رسوا کے انتقال کے بعد بھی تین برس ناظرادب برقرار رہے‘جب تک کہ انہوں نے حیدرآباد سے کوچ نہیں کیا۔
وطن کی یاد کس کو نہیں آتی کبھی بچپن کی معصوم شرارتوں کی یاد، کبھی اپنوں کا پرایا سلوک،کبھی محرومیاں،کبھی اداس اداس سی خوشیاں،کبھی میلوں میں حسرت سے کھلونوں کو تکنا اور عیدکو و الدین کی قبروں پرفاتحہ خوانی۔کبھی جوانی کی جولانیاں،کبھی بند آنکھوں کے جاگتے خواب اور کبھی غنودہ کنج میں آرزوؤں کے رنگ، ان سب نے رسوا کا مسلسل تعاقب کیا۔وہ کتابوں میں خود کو بہلاتے رہے۔جانے کس کا غم تھا اور کیسا غم تھا کہ رسوا جیسا سخت جان بھی ایک بار شعر کے پیکر میں بلک اٹھا۔ان کا یہ شعراتنا ہی عزیز ہے، جتنا میرا اپنا وجود، اور وہ شعر یہ ہے:
تم جدائی میں بہت یاد آئے
موت تم سے بھی سوا یاد آئی
رسواؔ کی علمی عظمتوں کے اعتراف کے لئے یہی کافی ہے کہ جامعہ عثمانیہ میں فلسفہ اور منطق کے پروفیسر جب رخصت پر ہوا کرتے تو مرزا محمد ہادی ان کی جگہ درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔اس کے علاوہ وضع اصطلاحات کی کمیٹی میں بھی رسواؔ بحیثیت رکن شامل تھے۔دارالترجمہ میں اپنی خدمات کے عرصہ میں مرزا محمد ہادی رسوا نے تقریباً دس قیمتی کتابوں کا ترجمہ کیا، جس میں سے نو کتابیں جامعہ عثمانیہ کے دارالطبع سے شائع ہوئیں اور آج بھی آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔
ان اشاعتوں میں مفتاح المنطق حصہ اول اور حصہ دوم از W.D. Joseph
۱۹۲۳میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔یہ ترجمہ انگریزی سے کیا گیا۔۱۹۲۵ء میں شہاب الدین سہروردی کی کتاب حکمت الاشراق کا عربی سے ترجمہ کیا، وہ شائع ہوا۔۱۹۲۷ء میں ولیم میک زوگل کی معاشرتی نفسیات، ۱۹۲۹، میں آکیسے کی مفتاح الفلسفہ، ٹی جے بوٹر کی تاریخ فلسفۂ اسلام، جی ایف اسٹنوٹ کی مبادی علم النفس،۱۹۳۵ء میں جمہوریہ افلاطون اورارسطو کی کتاب الاخلاق کی اشاعت عمل میں آئی۔ایک کتاب یوزس آف لاجک بھی رہی ہے،لیکن شاید شائع ہونے سے رہ گئی یا محفوظ نہ رہ سکی۔ڈاکٹر داؤ اشرف نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
ایک اور بات جو بڑی حیران کن ہے کہ مرزا محمد ہادی رسوا نے اُردو شارٹ ہینڈ پر ایک قیمتی کتاب بھی لکھی ہے اور اُردو ٹائپ رائٹر کے’’کی بورڈ‘‘ کے سلسلے میں بھی ان کاکام بہت نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔مرزا محمد ہادی رسوا نے اس کے علاوہ بھی جو کام انجام دیئے اور ان کے دیگر ناول جو لکھنؤ کی تہذیب کا احاطہ کرتے ہیں ،ان پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔خود امراؤ جان پر اور رسوا کی شاعری پر بہت کام کی گنجائش ابھی باقی ہے۔رسوانے ہر جہت میں ہر مرحلہ کو طے کیا، لیکن زندگی بھر انہیں کیمیاگری کا شوق رہا۔انہوں نے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ اس شوق کی خاطر خرچ کیا۔وہ کیمیا گری میں کامیاب نہ ہوسکے۔۲۱؍ اکتوبر۱۹۳۱ء کو ادب، فلسفہ، منطق،شعر، لسانیات کے اس کیمیا گر نے آخری سانس لی۔حیدرآباد قدر دانوں کا شہر ہے،یہاں کی مٹی کے خمیر ہی میں قدر دانی ہے،سو اس نے مرزا محمد ہادی کو لکھنؤ میں رسوا ہونے کا موقع نہیں دیا۔آپ کبھی سیاست کے دفتر سے کچھ فاصلہ پر گلی میں مسجد فرمان واڑی تشریف لے جائیں تو اس سے متصل قبرستان میں علی حیدر نظم طباطبائی،مرزا محمد ہادی رسواؔ ، حلمی آفندی کے والد اور چچا جعفر آفندی اور طالب آفندی کو ابدی نیند میں آرام فرما پائیں گے۔علی حیدرنظم طباطبائی کے مزار پر کبھی یہ کتبہ ہوا کرتاتھا،جس پر لکھا تھا:
مل گئی قبر کی جگہ اے نظم
ہوگئی ختم عمر بھر کی تلاش
۱۹۸۰ء کی دہائی میں ایک شخص مظفر علی لکھنؤ سے حیدرآبادآیا۔بعد تلاش بسیار وہ مرزا محمد ہادی رسوا کی قبر پر پہنچا۔قبر کی چٹکی بھر مٹی اس نے بھٹی پر رکھی کٹھولی میں ڈالی تو سنتے ہیں کہ ساری پگھلی ہوئی دھات سونا ہوگئی۔رسوا تو کیمیا گری نہ کرسکے،مگر آج کی تجارتی دورنے فلم کے ذریعہ سوداسے کیمیاگری ضرور سیکھ لی۔میں کبھی اس قبر ستان کو دیکھتا ہوں تو جانے کیوں ہوا سرگوشی کرتی ہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Aijaz Farruq

Allama Aijaz Farruq
18-8-450/4
SILVER OAK, EDI BAZAR
NEAR SRAVANI HOSPITAL
HYDERABAD- 500023
Mob: +919848080612
afarruq@]gmail.com

Sunday, 15 November 2015

ہندوستان کی تاریخی فلمیں

ہندوستان کی تاریخی فلمیں
امام اعظم

ہندوستانی فلموں کی اپنی شاندار روایت رہی ہے۔ یہ روایت ہماری زبان اردو کا قیمتی اثاثہ ہے۔ کیونکہ یہ فلمیں اپنی عوامی مقبولیت کے باعث جہاں ہماری زبان کے فروغ کا ذریعہ بنتی رہی ہیں وہیں ہمارے بڑے ادبی سرمائے کی تخلیق کا ذریعہ بھی بنی ہیں۔
فلموں میں شامل بیشتر اردو کلام فلموں کے لیے ہی لکھے گئے ہیں۔ ان کا بڑا حصہ اردو شاعری کے عمدہ انتخابات میں شامل کئے جانے کے لائق ہے۔ فلموں کے لیے کلام لکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ نغمے فلم کی کہانی کو سامنے رکھ کر ضرورت کے مطابق تخلیق کیے جاتے ہیں۔ گویا یہ فلمیں نہ ہوتیں تو شاید ان عمدہ کلاموں کی تخلیق عمل میں نہ آتی۔
گرچہ ادیبوں کے ایک طبقہ کو اس کی ادبیت تسلیم کرنے پر تردد ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فلموں کے لیے تخلیق کیے گئے ادب کی جمالیات کا تقابل غیر فلمی ادب سے کیا جائے تو یہ بلاشبہ اپنی اہمیت تسلیم کرا لیں گے۔ فلموں کی کہانی کا ذریعہ اظہار تصویریں ہیں اس لیے کہانی کا بیانیہ حصہ سامنے نہیں آتا ہے لیکن کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے جو مکالمے ادا کیے جاتے ہیں ان میں اس کی ادبیت اپنے پورے نکھار اوررچاؤکے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے او رسننے والوں کے احساس جمال کی تسکین کرتی ہے۔ دوسری طرف فلموں کا لازمی جز نغمے ہیں ۔ ابتدا سے فلموں کے جو رکارڈ س ہمارے پاس موجود ہیں ان میں ان کی ادبیت کا برملا اظہار ہوتا ہے۔ بلکہ بہت سی فلمیں ایسی ہیں جو ان نغموں کی وجہ سے جو ہماری کلاسیکی شاعری کی طرز پر ہیں یا ایسے مکالمو ں کی وجہ سے جو فارسی زدہ ہیں مقبول ومشہور ہوئیں۔
فلمیں انتہائی زود خلق آرٹ ہیں۔ ہندوستان میں فلموں کی تقریبا سو سالہ تاریخ ہے۔ اس مدت میں اس فن میں بے شمار لا زوال شہ پارے تخلیق پائے ہیں۔ جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو ہندوستانی فلموں اور اردو کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود فلموں کا ہندوستان سے۔ غیر معمولی مقبولیت اور تاریخی اہمیت کی حامل فلمیں اپنی منفرد خوبیوں کی وجہ سے اپنا خا ص مقام رکھتی ہیں۔ یہ سیکڑوں سے زائد کی تعداد میں ہیں ۔ظاہر ہے ان کااستقصا اور ان پر بحث اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں ہے ۔ بلکہ یہ خالص تحقیقی موضوع ہے جو اس مختصر مدت میں ممکن نہیں ہے۔
عنوان کے لحاظ سے اس کے تین پہلوہیں۔
ایسی فلمیں جن کی شہرت ومقبولیت کا مدار صرف اردو زبان وادب ہے۔
ایسی فلمیں جنہوں نے فلموں کی دنیا میں اپنی تاریخ رقم کی اس میں اردو کی حصہ داری۔
تاریخ پر مبنی فلموں میں اردو کی حصہ داری۔
ان تینوں پہلؤوں کو ذہن میں رکھ کر اس مقالے میں نمائندہ فلموں کے حوالہ سے گفتگو کی جائے گی۔
ہندوستان میں فلموں کی روایت پارسی تھیٹر اور اس سے قبل سنسکرت ڈراموں سے رہی ہے ۔ لیکن فلموں کی دنیا میں جو انقلاب آیا وہ فلم’ عالم آرا‘ کی آمد ہے۔ کیونکہ اس کے بعد فلموں کو قوت گویائی حاصل ہوگئی۔ اب چہروں کی لکیروں سے خوشیوں اور غم کے تاثرات پڑھنے کی بجائے زبان سے ان کا اظہار ہونے لگا۔ زمین پر چلتی پھرتی زندگی فلم کے پردے پر نظر آنے لگی۔ چنانچہکو جب یہ فلم میجسٹک تھیٹر میں پیش کی گئی تو ہندوستانی فلموں نے ایک نیا رخ لیا۔ ”اس وقت بھارت میں اردو زبان کا بول بالا تھااور فلم کے پوسٹر پر چونکانے والے جملے لکھے گئے تھے۔ مثلا: ”اٹھتر مردہ انسان زندہ ہوگئے ہیں انہیں بولتے دیکھو“۔ اس انداز نے لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کردی،پولیس کے لیے اس بھیڑ پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔اس فلم کے ٹکٹ بھی بلیک ہوئے۔“ (دیکی پیڈیا ’اردو)
اس فلم کے ہدایت کار ارد شیر ایرانی تھے ۔ جب کہ اداکار کے طور پر مراٹھی تھیٹر کے اداکار ماسٹر وٹھل اور ادا کارہ کے طور پر زبیدہ نے کام کیا۔ اس فلم میں بائیس نغمے تھے جس کو ڈبلیو ایم خان اور ہیروئن زبیدہ نے گا یا تھا۔ اس وقت پلے بیک کی تکنیک ایجاد نہیں ہوئی تھی گانے ادا کار خود گاتے تھے چونکہ ابتدائی فلموں کے رکارڈس دستیاب نہیں ہیں اس لیے ان کے مکالموں کے سلسلہ میں کوئی واضح بات تو نہیںکی جاسکتی ہے۔البتہ اس کے پوسٹر پر اردو میں اشتہاری جملہ دیا گیا تھا جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے اس کے علاوہ اس فلم کے دو گانوں کے بول یہ تھے جسے زبیدہ اوروزیر محمد خان نے گایا تھا۔
(پہلا گانا)                       دے دے خدا کے نام پر پیارے ، طاقت ہو گر دینے کی
  کچھ چاہے اگر تو مانگ لے مجھ سے ، ہمت ہو گر لینے کی
وزیر محمد خان
بدلا دلوائے گا یارب تو ستمگروں سے                                                   تو مددگار ہے تو خوف کیا جفا کاروں سے
کاٹھ کی تیغ تو جو چاہے تو وہ کام کرے                      جو کہ ممکن ہے نہیں لوہے کی تلواروں سے
ہندوستانی فلموں کا جیسے ہی یہ جدید دور شروع ہوا ،اردو کے نامور ادیبوں اور شعرا نے فلمی دنیا میں اپنی قسمت آزمائی شروع کردی اور اپنے اظہار خیال کا وسیلہ بنایا۔ اس میڈیم سے جہاں انہیں بے پناہ شہرت ومقبولیت اور دولت حاصل ہوئی وہیں انہوں نے اردو زبان کو عوام میں مقبول اور عام کیا ۔
اس فہرست میں اردو ادب کے بڑے نام شامل ہیں۔ جیسے: سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی، شاہد لطیف، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، تنویر نقوی، سردار جعفری، جوش ملیح آبادی، ساغر نظامی، خمار بارہ بنکوی، ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی، قمر جلال آبای، راجہ مہدی علی خاں، اسرارالحق مجاز، حسرت جے پوری، مجروح سلطان پوری، کیف بھوپالی، کیف عرفانی، اسعد بھوپالی اور قتیل شفائی وغیرہ۔
قمر جلال آبادی بیک وقت کسی فلم کے لیے کہانی ، مکالمے اور نغمے خود لکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی فلموں میں مکالموں اور گیتوں کا تعلق کہانی سے مربوط ہوتا تھا۔انہوںنے شاہ جہاں اور ممتاز محل پر مبنی ایک تاریخی فلم تاج محل بنائی جس کے ہدایت کار ایم صادق تھے۔ نغمے ساحر اور روشن نے دئیے تھے۔ رحمان نے جہانگیر ، پردیپ کمار شہزادہ خرم ، مینا راج ملکہ عالم ممتاز اور بینا نے نورجہاں کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کو بہترین نغموں کے لیے ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ اس کے مشہور نغمے تھے:
جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں
’’پاؤں چھولینے دو پھولوں کو تو عنایت ہوگیورنہ ہم ہی کو نہیں ان کو بھی شکایت ہوگی‘‘
اسی میں یہ مشہور نغمہ بھی تھا:
 ” جرم الفت پر ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں           کتنے ناداں ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں‘‘
میں کے۔ سردار نے ایک تاریخی فلم عدل جہانگیر بنائی تھی۔۱۹۵۵میں جی پی سپی نے بھی یہی فلم بنائی۔ اس فلم میں میں قمر جلال آبادی نے نغمہ لکھا تھا۔ ایک نغمہ تھا :”چاند تارے کرتے اشارے“ جسے طلعت محمود نے گایا تھا۔ اسی میں ایک گانا یہ بھی تھا : ”زندگی ایک سفر ہے سہانا“ ۔قدیم اردو طرز پر ایک گانایہ تھا:
نظر لاگے پیاری سانوریا تمہاریاس پر تورے رسیلے نینا دوجے ماری کٹاری
راجندر کرشن جو داد شملوی کے نام سے شاعری کرتے تھےروپے ماہانہ مستقل آمدنی والی پوسٹ آفس کی ملازمت چھوڑ کر فلمی دنیاسے وابستہ ہوگئے اور شہرت ودولت کمائی اور اپنی کہانیوں ، نغموں اور مکالموں سے فلمی دنیا کو مالا مال کیا۔ عصمت چغتائی علی گڑھ سے فارغ ہوکر شاہد لطیف کے ساتھ بمبئی گئیں۔ یہاں عصمت کی کہانی اور شاہد کی ہدایت کاری میں کئی یادگار فلمیں بنیں۔ جیسے بزدل، ضدی، آرزو وغیرہ۔
آرزو میں دلیپ کمار اور کامنی کوشل نے کام کیا تھا۔ اس فلم میں غالب کی ایک غزل کی طرح پر ایک گانا تھا جو بہت مشہور ہوا۔
اود ل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو                                اپنا پرایا، مہرباں نامہرباں کوئی نہ ہو
چل کہیں کھو جاؤں، نیند میں سو جاؤں                                        دنیا مجھے ڈھونڈے مگر میرا نشاں کوئی نہ ہو
سعادت حسن منٹو فلمستان اسٹوڈیو کے مستقل ملازم تھے۔ ریڈیو کے علاوہ فلم کے لیے کہانی اور مکالمے بھی لکھتے تھے۔ فلمستان کی ایک فلم ”آٹھ دن “ میں انہوں نے ادا کاری بھی کی تھی اور ایک پاگل جرنیل کا کردار ادا کیا تھا۔
کرشن چندر نے پہلی فلم” سرائے کے باہر “لکھی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں” گرم کوٹ “اور ”ایک چادر میلی سی “پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ بیدی نے خود بھی کئی فلمیں بنائیں ۔جیسے :”دستک “اور ”آنکھن دیکھی“وغیرہ۔ دستک بہت کامیاب رہی اور اسے ادبی حلقوں میں بھی کافی سراہا گیا ۔ یہ فلم آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کو مشکوک نظروں سے دیکھے جانے اور ان کے ساتھ تعصابانہ برتاؤپر مبنی تھی۔ اس میں مجروح کی یہ مشہور غزل بھی شامل تھی
ہم ہیں متاع کوچہ بازار کی طرح                  اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
بمل رائے کی فلم ”دیوداس “ جو سرت چندر چٹرجی کے ناول ”دیوداس “پر مبنی تھی ، ساحر لدھیانوی کے نغموں ، دلیپ کمار کی ادا کاری اور بیدی کے دلوں کو چھو لینے والے مکالموں کی وجہ سے بہت کامیاب ہوئی۔
پریم چند بھی بمبئی بلائے گئے۔ اس وقت فلم ساز بڑے پڑھے لکھے ، اعلی تعلیم یافتہ اور ادبی ذوق رکھنے والے ہوا کرتے تھے باصلاحیت ادیب او رشاعر کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔ کسی رسالے میں کوئی تخلیق پڑھ کر یا کسی مشاعرے میں کسی شاعر کو سن کر اسے فلم کے لیے لکھنے کا موقع دیا کرتے تھے۔ چنانچہ شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری اور خمار بارہ بنکوی کو مشاعروں میں کلام پڑھتے دیکھ کر مشہور موسیقار نوشاد نے فلموں میں موقع دلوایا۔
حسرت جے پوری جو ایک بس کنڈکٹر تھے پرتھوی راج نے ایک مشاعرے میں سنا اور اپنی فلم کے لیے منتخب کرلیا ۔ اس کے بعد راجکپور کی ہر فلم میں حسرت جے پوری تا حیات کام کرتے رہے۔
پریم چند نے ایک فلم ’مزدور “لکھی۔ لیکن اس وقت ہندوستان غلام تھا۔ اس میں ایک وطن پرست مل مالک کو پیش کیا گیا تھا۔ گرچہ یہ فلم خوب چلی لیکن حکومت برطانیہ کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس کی نمائش روک دی گئی۔ پریم چند کے ناول گؤدان، غبن اور نرملا اور ان کی کہانیوں دوبیل دو بگہہ زمین ، شطرنج کے کھلاڑی ، پنچایت (پنچ پرمیشور) پر بھی فلمیں بنیں۔
تقسیم وطن سے قبل شوکت حسین رضوی نے ایک مسلم سوشل فلم ”زنیت “بنائی ۔( اس وقت عام طور پر مسلم سوشل فلمیں ہی بنا کرتی تھیں) یہ پہلی فلم تھی جس میں کسی خاتون قوالہ کو پردہ پر گاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یہ قوالی نخشب کی لکھی ہوئی تھی جو آج تک مشہور ہے اور اکثر پرانی فلموں کے فرمائشی پروگرام میں سنی جاتی ہے:
آہیں نہ بھرے، شکوے نہ کئے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیااس پر بھی محبت چھپ نہ سکی جب تیرا کسی نے نام لیا
خود نخشب نے اپنی فلم” نغمہ“ بنائی جس کے گیت ”کاہے جادو کیا ، مجھ کو اتنا بتا ، جادو گر بالما“اور یہ غزل” بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا “بڑے مشہور ہوئے۔ لیکن اس کے بعد شوکت حسین رضوی ، نورجہاں اور نخشب پاکستان چلے گئے ۔ ان کی ایک اور فلم تھی ”نیک پروین “ اس کا ایک گانا بہت مشہور ہوا اور آج بھی شادی بیاہ کے موقع پر سہرے کے طور پر سنا جاتا ہے۔
مبارک ہو دولہا دولہن کو یہ شادیملے دل سے دل زندگی مسکرادی
بی آر چوپڑہ خود بھی اعلی تعلیم یافتہ تھے اور اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت سی صاف ستھری اور سبق آموز فلمیں بنائیں۔ انہوں نے بی آر چوپڑہ فلمز کے بینر تلے ”چاندنی چوک“،” ایک ہی راستہ “،” افسانہ“،” اتفاق“،” دھند“، ”دھول کا پھول“،” گمراہ“،” نیادور“،” قانون“، ”وقت “،”داستان“ اور بہت سی کامیاب فلمیں بنائیں۔ قومی یکجہتی پر ان کی فلم” دھرم پتر “جس میں تقسیم ہند کا المیہ اور اس کے بعد کے حالات بڑی چابکدستی سے فلمائے گئے ہیں۔ اس فلم کو حکومت ہند کی طرف سے بھی بہت سراہا گیا۔ اشوک کمار، مالا سنہا، رحمان، منموہن کرشن اس کے اداکار تھے۔ اس میں شنکر شمبھو اور ساتھیوں کو ایک قوالی گاتے ہوئے دکھایا گیا ہے:
یہ مسجد ہے وہ بت خانہ ،     مطلب تو ہے دل کو بہلاناچاہے یہ مانو چاہے وہ مانو
ایک اور گانایہ تھا :                               اے رہبر ملک وقوم بتا ؟      یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟
اس فلم کے سارے نغمے ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے اوران کی بیشتر فلموں کے نغمے ساحر لدھیانوی اور اختر الایمان ہی لکھتے تھے۔
دھرم پتر ‘ کا ایک سیکولر کردار یہ جملہ کہتا ہے :”بھائی صاحب! یہاں دلی میں اب دلی والے نہیں بستے بلکہ ہندو اور مسلمان بستے ہیں۔ “اس فلم میں ایک غیر مسلم کردار دوسرے غیر مسلم کردا سے یو ں بحث کرتا ہے:
ایک کردار: مسلمان ظالم ہیں، ان کا مذہب اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔
دوسرا کردار: یہ بالکل غلط ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے تیرہ سو سال حکومت کی ۔ اگر اسلام تلوار کے زور پر پھیلتا تو ہندستان میں ایک بھی ہندو باقی نہیں بچتا۔
یہ مکالمے اختر الایمان نے لکھے اور یہ بی آر چوپڑہ کی جرأت تھی کہ انہوں نے اس مکالمہ کو فلم میں برقرار رکھا۔
ان کی فلم وقت کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس فلم کے سارے مکالمے بہت ہی پر اثر تھے ۔ لیکن راجکمار کے ذریعہ بولا گیا یہ جملے : (ویلن سے چاقو چھینتے ہوئے)بچوں کا کھیل نہیں ، کٹ جائے تو خون آجاتا ہے۔ اور ”چنائے سیٹھ جس کے مکان شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکتے“۔ بہت مشہور ہوئے
فلم ”وقت “کے ایک منظر میں تھوڑی دیر کے لیے اخترالایمان صاحب خود تشریف لاتے ہیں اور طالب علموں کو اردو شاعری کے متعلق بتاتے ہوئے اپنی ہی آزاد نظم پڑھتے ہیں:
نقرئی گھنٹیاں بجتی ہیں /دھیمی آواز میرے کانوں /دور سے آرہی ہے تو شاید/بھولے بسرے ، ہوئے زمانوں /
میرے ، اپنے، شرارتیں ، شکوے/یاد کرتو نہیں رہی ہو کہیں
یہ وہ زمانہ تھا جب اردو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس فلم میں ایک خون کے معاملہ میں سرکاری وکیل اور وکیل صفائی کے درمیان عدالت میں طویل بحث ومباحثہ بھی تھا۔
چوپڑہ کی فلم ’دھول کاپھول“ میں ایک ناجائز اور بے سہارا معصوم بچہ کی پرورش ایک مولوی صاحب کرتے ہیں اور اسے ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ ایک انسان بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس فلم میں بھی ساحر کا یہ نغمہ :
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا                     انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا                                   ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا
قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی                               ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
بی آر چوپڑہ نے ایک ناول ”بند دروازہ“ پر فلم طوائف بنائی۔ اس سے قبل وہ طوائف کی زندگی پر فلم’ سادھنا‘ بناچکے تھے جس کے ہیرو سنیل دت اور ہیروئن وجینتی مالا تھے۔ اس فلم کے لیے ساحر لدھیانوی نے اپنی مشہور نظم
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا                 جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
اور   ”یہاں ہر چیز بکتی ہے ۔ کہو جی تم کیا کیا خریدوگے؟ “  استعمال کیے۔
چوپڑہ ہی کی ایک اور کامیاب فلم ”قانون“ ایک نیا تجربہ تھا۔ اس میں کوئی گانا نہیں تھا۔ قتل کے معاملہ میں ایک معصوم اور بے گناہ ملزم کو سزائے موت ہوجاتی ہے۔ سرکاری وکیل ایک معزز جج کو قاتل سمجھ بیٹھتا او راسے سزا دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کشمکش اورجد وجہد میں تین گھنٹے عدالت میں بحث ہوتی ہے اور آخر میں اصل مجرم بے نقاب ہوتا ہے۔ اس طویل بحث ومباحثہ میں ناظرین ذرا بھی نہیں اکتاتے اور کہیں بھی ناچ گانوں کی کمی نہیں کھٹکتی ہے۔ یہ اخترالایمان کی کہانی اور مکالمے اور چوپڑہ کی ہدایت کاری کا کمال تھا۔ سارے مکالمے فصیح وبلیغ اردو اور فارسی زبان میں تھے ۔ یہ فلم بہت کامیاب رہی۔ منصفوں ، وکیلوں اور قانون دانوں نے اس فلم کو باربار دیکھا اور اسے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
چوپڑہ ہی کی حالیہ فلم کا نام پہلے ”طلاق ، طلاق، طلاق“ تھا۔ اس کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے ملک گیر احتجاج ہوا ، حکومت کی توجہ بھی مبذول کرائی گئی کہ اگر کوئی مسلمان فلم دیکھ کر گھر آئے اور اس کی بیوی اس سے پوچھے کہ کون سی فلم دیکھ کر آئے ہو تو وہ آدمی تین بار” طلا ق طلاق طلاق“ کہے گا۔ ایسی حالت میں اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ بی آر چوپڑہ خود سنجیدہ انسان تھے ، اسے بڑی سنجیدگی سے لیا اور فلم کا نام نکاح تجویز کیا۔ یہ فلم بھی خوب چلی اور حسن کمال کے لکھے ہوئے نغمے اور خصوصا یہ قوالی بہت مقبول ہوئے: ”جی چاہتا ہے آگ لگادوں نقاب میں
دل کے ارماں آنسؤوں میں بہہ گئے                              ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
فلمساز اور ہدایت کار محبوب خان نے بہت سی کامیاب فلمیں بنائیں ۔ ان کی فلموں کا نام عمومایعنی الف سے شروع ہوتا تھا۔ جیسے الہلال، آن، انداز اور امر وغیرہ۔ انہوں نے ایک فلم ”اعلان “بنائی ۔ اس کی نمائش کے دوران ملک آزاد ہوا اور اس کی تقسیم بھی ہوگئی۔ اعلان کا ایک ولولہ انگیز نغمہ جب پردہ پر آتا تو تو مسلم فلم بینوں کے نعرہ تکبیر سے سنیما ہال گونج اٹھتا تھا۔ وہ نغمہ یہ تھا:
انسان کی تہذیب پہ احسان ہماراگرجا ہے ہر ایک ملک میں قرآن ہمارا
محبوب اپنی فلم ”آن “کو رنگین بنانے کے لیے انگلینڈ گئے اس فلم میں انہوں نے ایک یہودی لڑکی نادرہ کو پہلی بار ہیروئن کے طور پر پیش کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ملٹی اسٹار فلم ”انداز “بنائی جو اپنے زمانہ کی کامیاب ترین فلم ثابت ہوئی ۔ اس فلم میں دلیپ کمار اور راج کپور کے مقابل نرگس ہیروئن تھی اور پرتھوی راج کپور بھی تھے۔ اس کے نغمہ نگار شکیل بدایونی اور موسیقار نوشادتھے۔ اس کا یہ نغمہ بہت مقبول ہوا:
چمن میں رہ کے ویرانہ میرا دل ہوتا جاتا ہےخوشی میں آجکل کچھ غم بھی شامل ہوتا جاتا ہے
محبوب خان کی ہر فلم شروعات کمیونسٹ کے نشان ہنسوا اور ہتھوڑے کے بعد بیل گاڑی کے ایک گھومتے ہوئے پہیہ سے ہوتی تھی اور بیک گراؤنڈ سے یہ شعر مشہور ادا کار مراد کی پاٹ دار آواز میں سنائی دیتا ہے۔ یہ ان کا ٹریڈ مارک تھا:۔ اس کا یہ نغمہ بہت مقبول ہوا
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہےوہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
انہوں نے اپنی پرانی کامیاب فلم ”عورت “کو دوبارہ” مدر انڈیا“ کے نام سے بنایا جس کے فنکاروں میں راج کمار ، راجندر کمار، سنیل دت، کنہیا لال تھے ۔ لیکن فلم کی کہانی ہیروئن نرگس کے گرد گھومتی ہے۔ اسی کا کردار سب سے اہم ہے ۔ اس میں دیہات کی زندگی ، ایک کسان کی مفلوک الحالی ، سود خواروں کی اجارہ داری اور اس کے ظلم وستم، قدرتی آفات خشک سالی اور سیلاب کی تباہ کاریاں اور ایسی حالت میں ایک تنہا عورت کی بے بسی اور لاچاری بڑے ہی دل دہلادینے والے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ اس میں نوشادکی موسیقی اور شکیل کے آسان ہندوستانی زبان میں تقریبا بارہ گانے شامل تھے۔ اس فلم میں ایک انوکھاواقعہ بھی پیش آتا ہے۔ شوٹنگ کے دوران سوکھے فصلوں کے ڈھیر میں آگ لگ جاتی ہے اور اس میں نرگس گھر جاتی ہے ۔ قریب تھا کہ وہ اس آگ میں زندہ جل جاتی لیکن سنیل دت نے اپنی جان پر کھیل کر اسے آگ سے بچایا ۔ اس حادثہ میں دونوں بری طرح جھلس بھی گئے۔ محبوب نے ماہرانہ چابک دستی سے اس منظر کو فلمایا اور یہ منظر واقعی فلم کی جان ہے ۔ مدر انڈیا پہلی ہندستانی فلم تھی جسے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔
عبد الرشید کاردار(اے آر کاردار) نے فلمی دنیا میں اپنی بہت اچھی چھاپ چھوڑی ہے ۔بہت ہی غنائیہ فلمیں بناتے تھے۔ اکثر اپنی فلموں کا نام ’دال‘ سے شروع کرتے۔ جیسے: ”درد“، ”داستان“،” دل لگی“ اور” دلاری“ وغیرہ۔
 فلم” درد“ یتم خانہ کے بچوں کے ایک کورس سے شروع ہوتی ہے:
ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنادیں گے                 ہر دل محبت کی ایک آگ لگادیں گے
سرکار دوعالم کی امت پہ ستم کیوں ہو                           اللہ کے بندوں کو منجدھار کا غم کیوں ہو
اسلام کی کشتی کو ہم پار لگادیں گے                               ہوجائے گی پھر دنیا آباد یتیموں کی
گونجے گی زمانے میں فریاد یتیموں کی                           ہم پر بھی کرم کرنا ہم تم کو دعا دیں گے
اسی فلم میں ثریا کی آوا ز میں ایک نعت بھی تھی :
    بیچ بھنور میں آن پھنسا ہے ، دل کا سفینہ                   شاہ مدینہ
اور مشہور مزاحیہ خاتون ٹن ٹن کا بحیثیت گلو کارہ اوما دیوی کے نام سے پہلا گا نا تھا:
افسانہ لکھ رہی ہوں دل بے قرار کا                              آنکھوں میں رنگ بھر کے ترے انتظار کا
بے تاب ہے دل درد محبت کے اثر سے
یہ شکیل بدایونی کی پہلی فلم تھی او رسارے نغمے انہی کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔
کارداد نے ایک تاریخی فلم ”شاہ جہاں “بنائی۔مجروح سلطان پوری کو اسی میں پہلی مرتبہ موقع ملا تھا۔ موسیقی نوشاد کی تھی۔ کے۔ایل ۔ سہگل کی وجہ سے یہ ایک میوزیکل فلم تھی کیونکہ سہگل ہیرو ہونے کے ساتھ اپنے گانے خود گاتے تھے۔ اس فلم کے مشہور نغمے تھے:
اے دل بے قرار جھوم اے دل بے قرار جھوم                    پی کے خوشی میں بار بار پیرمغاں کے ہاتھ چوم
غم دیئے مستقل کتنا نازک ہے دل یہ نا جانا                   ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کر کیا کریں گے
موجودہ دور کے مشہور اسکرین پلے کہانی اور مکالمہ نگار جوڑی سلیم ۔ جاوید فلمی دنیا میں اپنا لوہا منوالیا۔ یہ اردو زبان کی مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ اس جوڑ ی نے نئی تاریخ رقم کی کہ فلم ساز ، ہدایت کار، یا ہیرو ہیروئن سے پہلے فلم کے رائٹر کا نام فلم کی پبلسٹی میں ہونے لگا۔ جیسے’ سلیم ۔جاوید کی’ دیوار‘۔ اس مشہور جوڑی نے ’شعلے‘ ،’ دیوار‘،’ ترشول‘،’ سلسلہ‘ اور بے شمارہ مشہور اور کامیاب فلمیں لکھیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان تمام فلموں کی شہرت اور کامیابی سلیم اور جاوید کے زور قلم ہی کا مرہون منت تھی۔
ان کی فلم شعلے اب تک کی سب سے زیادہ چلنے والی اور مشہور فلم ہوئی۔
جاوید اختر کے والد جاں نثار اختر بھی اپنی ملازمت سے مستعفی ہوکر فلم نگری بمبئی آگئے اور بہت سی کامیاب فلموں کے نغمے لکھ کر خوب پذیرائی حاصل کی۔ انہوں نے ایک فلم ساز کمپنی بھی بنائی جس کا نام ’صنم کدہ ‘رکھا۔کی دہائی میں ان کی ایک فلم ”بہو بیگم “ آئی جس کے پوسٹر پر لکھا تھا ”صنم کدہ “ کی تخلیق ”بہو بیگم“ ۔ یہ فلم بہت کامیاب رہی۔ اس میں لکھنؤکی تہذیب وتمدن کی عکاسی تھی۔ درگاہ، مزارات کی قوالیوں کے علاوہ یہ نغمے بھی تھے جو بہت مقبول ہوئے
ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک                              خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے
دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں؟
دیوانند کے فلم سازادارہ’ نوکیتن‘ کی پہلی فلم ’بازی‘ ساحر لدھیانوی کی بھی بحیثیت فلمی شاعری پہلی فلم تھی۔ گرودت نے اسی سے اپنے فلم کیرئیر کا آغاز کیا۔بعد میں گرودت ہدایت کار اور ہیر و بن گئے انہوں نے ’پیاسا‘،’ کاغذ کے پھول‘ اور’ چوندھویں کا چاند ‘جیسی فلمیں بنائی۔ پیاسا ایک اردو شاعر کی زندگی پر مبنی تھی ساتھ ہی پیشہ ور طوائفوں کی خستہ حالی اور درد کو بھی اجاگر کرتی تھی۔ ساحر نے اس میں اپنی مشہور نظم چکلہ ”ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں“ تھوڑی لفظی ہیر پھیر کے ساتھ پوری کی پوری پیش کی ہے اور اس مصرعہ کو فلم میں یو ں رکھا ہے:’ جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں‘۔ اسی فلم پبلشر کے ڈرائنگ روم میں مختصر شعری نشست میں جگر مرادآبادی کو بھی اپنا کلام سناتے دکھا یا گیا ہے۔ انہوں نے ”چوندھویں کا چاند “میں لکھنؤکی تہذیب کو پیش کیا ہے ۔ اس میں تین دوستوں کی ایثار اور قربانی ہے جن کے درمیان یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون زیادہ وفادار ہے۔ کاسٹنگ کے ساتھ بیگ گراؤنڈ سے یہ گا نا اس فلم کی جان ہے:”یہ لکھنؤ کی سرزمیں ، یہ لکھنؤ کی سرزمیں“ ساتھ ہی ٹائٹل سانگ ”چوندھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو“ اور” ملی خاک میں محبت جلا دل کا آشیانہ“ اور یہ گیت : ”شرماکے یونہی سب پردہ نشیں آنچل کو سنوارا کرتے ہیں “ بہت ہی مقبول ہوئے۔ اس فلم میں حج بدل کا مسئلہ بھی دکھایا گیا ہے ۔
سید امیر حیدر کمال امروہی کی ہر فلم نفاست اور شائستگی کا نمونہ ہوتی تھی۔ اپنی پہلی فلم ”دائرہ “ آخری تاریخی فلم”رضیہ سلطان “ تک انہوں نے ماحول سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنے مخصوص انداز میں فلمیں بناتے اور اس کی نوک وپلک کو سنوارتے ۔ ایک فلم میں کئی کئی شعرا کے کلام شامل کرتے ۔ ’بمبئی ٹاکیز ‘کے بینر تلے بنی ان کی فلم ”محل“ ہندستان کی پہلی تجسسی (سسپنس) فلم تھی۔ یہ ہندو عقیدہ پنر جنم پر تھی۔ اس کے یہ گانے :”آئے گا آے گا آنے والا“ لتا منگیشکر کی آواز میں اور امیر باقی کرناٹکی کی آواز میں” گھبرا کہ جو ہم سر کو ٹکرائیں تو اچھا ہو“ وغیرہ بہت مشہور ہوئے۔
اس فلم کے ایک سین میں عزت مآب جج کو ایک مقدمہ کا فیصلہ اردو میں لکھتے ہوئے اور آخری جملہ جس میں سزائے موت دی جاتی ہے قلم توڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
سہراب مودی کی تاریخی فلم ”پکار“ کے مکالمے انہوں نے ہی لکھے تھے ۔یہ ہندوستان کی پہلی تاریخی فلم تھی جس میں” با ادب !باملاحظہ ! ہوشیار!“ جیسے مکالمے کی اختراع ہوئی۔ انہوں نے طوائف کی زندگی پر ایک کامیاب فلم ”پاکیزہ“ بنائی جس کے مکالمے ”تعجب ہے لوگ دودھ سے بھی جل جاتے ہیں“ اور ”چلو پاکیزہ یہ دلدل پر کہرے سے بنی عمارت ہے جس میں ہر سانس کے لینے سے پہلے اجازت لینا پڑتی ہے“ کافی مقبول ہوئے ۔ اس فلم میں کمال امروہی کی اہلیہ میناکماری پاکیزہ کے رول میں تھی۔ فلم کے آغاز میں ایک کردار کو لفافہ پر اردو میں پتہ لکھتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ جو یوں ہے۔ ”شہاب الدین ، گلی قاسم جان، دہلی
اپنی آخری تاریخی فلم ”رضیہ سلطان“ میں مکالموں کی صحیح ادائیگی اور تلفظ درست کرانے کی غرض سے فلم کی ہیروئن ہیما مالنی کو چھ ماہ تک اردو استاد رکھ کر باقاعدہ اردو کی تعلیم دلوائی۔ فلم میں رضیہ سلطان کو گھوڑ سواری اور فن سپہ گری سکھانے والے اتالیق کا کردار دھرمیندر نے ایک حبشی غلام کے رول میں ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ مشہور اداکار سہراب مودی نے بھی نظام الملک کا کردار ادا کیا ہے۔ فلمکی شروعات فانی بدایونی کے اس شعر سے ہوتی ہے:
حسن ہے ذات میری ، عشق صفت ہے میری                     ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا
یہ فلم غلام خاندان کی حکومت التمش اور اس کی بہادر لڑکی رضیہ سلطان کی تاج پوشی اور الطونیہ کی بغاوت پر مشتمل تھی۔
سہراب مودی نے اپنی فلم کمپنی منروا مووی ٹون کے بینر تلے کئی مشہور سماجی اور تاریخی فلمیں بنائیں جن میں جھانسی کی رانی ، سکندر اعظم وغیرہ۔
سہراب مودی مکالموں کی ادائیگی کے لیے مشہور تھے۔ بڑے کرخت لہجہ میں پارسی تھیٹر کے اندر قافیہ اور ردیف ملاکر زوردار آواز میں ادا کرتے ۔ برجستہ اشعار بھی ہوتے تھے۔
فلم جھانسی کی رانی ایک تاریخی فلم تھی اور اس فلم کی تاریخی حیثیت یہ بھی ہے کہ یہ پہلی رنگین فلم تھی۔لیکن اس فلم کو مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔
آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ یہودی کی لڑکی پر بعد میں بمل رائے نے یہودی نام سے فلم بنائی۔اس میں دلیپ کمار نے ایک رومن شہزادے کا اور مینا کماری نے یہودی کی لڑکی کا کردار ادا کیا تھا۔وجاہت مرزا کے لکھے ہوئے ڈائیلاگ کو سہراب مودی کی ماہرانہ ادائیگی نے چار چاند لگادیا جو کافی مقبول ہوئے ۔ جیسے :        
نکل جانے کی یہ حسرت بڑی مشکل سے نکلے گی                کلیجہ چیر دے گی آہ جو اس دل سے نکلے گی
تمہارا خون خون اور ہمارا پانی ہے “۔
سہراب مودی نے غالب کی زندگی پر مبنی ایک فلم’ مرزا غالب‘ بھی بنائی ۔ اس کی ساری غزلیں مرزا ہی کی تھیں۔ اس میں غالب کے بعض لطیفے جیسے” گدھے آم نہیں کھاتے“ شامل ہیں۔ فلم مرزا غالب کو صدر ایوارڈسے بھی نوازا گیا ۔ اس سے خوش ہوکر سہراب مودی نے غالب کے مزار کی مرمت کرائی اور اس پر گنبد بھی بنوایا ۔ غالب کے رول میں بھارت بھوشن تھے جب کہ ڈومنی کے کردار میں ثریا تھی۔
فلموں کی تاریخ میں کے آصف نے بڑی اونچی جگہ پائی ہے۔ وہ بڑے ہی فیاض اوردلیر آدمی تھے۔ انہوں نے ہلچل اور مغل اعظم بنائی۔ اس وقت جب کہ پچیس تیس لاکھ میں ایک عمدہ فلم مکمل ہوجاتی تھی مگر کے انہوں نے ایک کروڑ کی لاگت سے مغل اعظم بنائی ۔ اس فلم کا ہر کردار انگوٹھی کے نگینہ کی طرح فٹ تھا۔ مغل شہنشاہ اکبر کے رول میں پرتھوی راج کپور ، رعب ودبدبہ میں اصلی شہنشاہ معلوم پڑتے تھے۔ شہزادہ سلیم کے رول میں دلیپ کمار ، انار کلی کی رول میں مدھوبالا اور مہارانی کے رول میں درگا کھوٹے ، وزیر اعظم راجہ مان سنگھ کے رول میں مراددُرجن سنگھ ، سپہ سالار کے رول میں اجیت او رسنگ تراش کے رول میں کمارتھے۔ امتیاز علی تاج کے ڈرامہ پر مبنی اس فلم کی نوک وپلک کو سنوارنے کے لیے ادیبوں کی ایک ٹیم تھی جن میں امان اللہ خان، وجاہت مرزا، اخترالایمان، کمال امروہی اور احسن رضوی شامل تھے۔ جبکہ ان میں سے ہر ایک رائٹر اپنی فلم کی کامیابی کے لیے اکیلا ہی کافی تھا۔
ایک ہی سین کو ہر رائٹر اپنے اپنے ڈھنگ سے لکھتا اور جو سب سے اچھا او رمناسب ہوتا باتفاق رائے اسے منتخب کرکے فلم میں شامل کیا جاتا ۔ اس فلم کے سارے نغمے شکیل بدایونی نے لکھے تھے اور موسیقی نوشاد نے ترتیب دی تھی۔
اس میں شامل نعت شریف ’بے کس پہ کرم کیجئے سرکار مدینہ ‘اور قوالی کا مقابلہ ”تیری محفل میں قسمت آزماکر ہم بھی دیکھیں گے“ اس کے علاوہ سارے نغمے فلم ریلیزہونے سے قبل ہی مقبول ہوچکے تھے۔
مغل حکومت کے رواج کے مطابق اس فلم میں انارکلی کو لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان سے فال کھولتے بھی دکھایا گیا ہے۔ فال میں یہ شعر نکلتا ہے:
دل می رود زدستم صاحبدلاں خدارا                       دادا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا
اس فلم کی تکمیل میں کے آصف نے سود خوار فنانسر شایورجی کے علاوہ اپنا مکان تک گروی رکھ دیا تھا۔ لیکن فلم کی کامیابی نے ان کے سارے قرضے چکادئے۔اس کے مکالمے اپنی فارسی زدگی کے باوجود جس طرح مقبول ہوئے وہ اردو کی چاشنی ہی کرامت تھی۔
مغل اعظم کی کامیابی کے بعد کیریکٹر ایکٹر اور ویلن شیخ مختار نے ایک تاریخی فلم ” نور جہاں “بنائی جس کے ہدایت کار ایم صادق تھے۔ اس میں اکبر اعظم کے رول میں رحمان اور نورجہاں کا کردار مینا کماری نے ادا کیا۔ یہ فلم خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ مجبورا شیخ مختار اسے پاکستان لے کر گئے ۔ وہاں اس فلم کی نمائش ہوئی اور کافی مقبول ہوئی۔
مشہور مزاحیہ اداکار اوم پرکاش (اوم پرکاش بخشی) نے شاہ جہاں اور ان کی لڑکی جہاں آرا کی زندگی پر ایک تاریخی فلم ”جہاں آرا بنائی“۔ فلم شروع ہونے سے پہلے بیگ گراؤنڈ سے آواز آتی ہے اور جہاں آرا کی زندگی اوران کی پاک محبت پر نہایت احترام کے ساتھ شاعرانہ انداز میں مختصر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ فلم کے آخری منظر میں جہاں آرا کے مزار پر یہ شعر کندہ دکھائی دیتا ہے
نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلےبر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے
اس فلم سے وابستہ دلچسپ اور مزاحیہ پہلو یہ ہے کہ فلم کی ناکامی سے دل برداشتہ ہوکر اوم پرکاش نے اپنے دفتر کے دروازہ پر تختی لگوادی”مزار جہاں آرا“۔
مغل اعظم بننے میں کافی عرصہ لگا۔ اس دوران فلمستان نے اسی کہانی پر’ انار کلی‘ بنائی اور ریلیزی کردی جو حسرت جے پوری اور راجندر کرشن کے نغموں اور موسیقار سی رام چندر کی دھنوں کی وجہ سے خوب چلی۔ اس کے ہر نغمے بہت مشہور ہوئے۔ اس فلم میں شہزادہ سلیم کا رول پردیپ کمار نے اور انار کلی کا رول بینا رائے نے ادا کیا ہے۔
خواجہ احمد عباس بھی علی گڈھ سے فارغ التحصیل ہوکر بمبئی گئے اور صحافت کے میدان میں قدم رکھا ساتھ ہی انہوں نے راجکپور کے لیے ’انہونی ‘،’شری چار سو بیس‘ ،’ آوارہ‘،’ میرا نام جوکر‘ اور’ سنگم ‘وغیرہ فلمیں بھی لکھیں۔
نیا سنسار“ کے نام سے انہوں نے اپنی فلم کمپنی بھی بنائی ۔ اس کے تحت شہر اور سپنا، دو بوند پانی، سات ہندوستانی بمبئی رات کی بانہوں میں، نکسلائٹ اور آسمان محل وغیرہ فلمیں بنائیں۔ اپنی اکثر فلموں میں مارکسی نظریہ پیش کیا۔ شہر اور سپنا سال کی بہترین فلم قرار دی گئی۔ اسے اس سال کا صدارتی ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ یہ ملک کے مختلف حصوں سے سات آزادی کے متوالوں کی کہانی ہے۔ مشہور اداکار امیتابھ بچن کو پہلی مرتبہ اسی فلم میں بہار کے ایک شاعر انور کے کردار کے طور پر موقع ملا تھا۔
آسمان محل حیدر آباد کے نوابوں کی ٹھاٹھ باٹ اور آزادی کے بعد تقسیم ہند اور زمینداروں کے خاتمہ کے ساتھ شرفا کی بتدریج زبوں حالی ،سماج کے بدلتے اقدار اور کمیونسٹ نقطہ نظر کی عکاس تھی۔
مظفر علی نے بھی علی گڈھ سے فراغت کے بعد ایک فلم گمن بنائی جو کافی مقبول ہوئی اس میں شہر یار کی اس غزل کو شامل کیا :
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے                   اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
اس کے بعد انہوں نے فلم ”امراؤجان“ بنائی ۔ جو مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤجان اداپر مبنی تھی۔اس میں لکھنؤکی زوال آمادہ تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے ۔ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی اس پر فلمیں بنیں لیکن مظفر علی کی فلم امراؤ جان سے زیادہ مقبولیت حاصل نہ کرسکی ۔ بہترین فلم، بہترین ڈائرکٹراوربہترین ہیروئن کا ایوارڈ حاصل کیا ۔
میں نانا بھائی بھٹ نے فلم ”لال قلعہ “ بنائی ۔ یہ فلم آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر پر مبنی تھی۔ اس کے سارے نغموں کے لیے بہادر شاہ ظفر کی غزلیں ہی منتخب کی گئیں۔
کملیشورنے بھی ایک تاریخی فلم ’بھگت سنگھ “ بنائی تھی۔ اس فلم میں انگریز مخالف باغیانہ پمفلٹس ، اخبارات اور پرچے اردو میں لکھے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ جیل کی دیواروں پر بھگت سنگھ کو ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ جیسے کئی اشعار لکھتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
گذشہ چند برسوں میں بھی تاریخ پر مبنی چند فلمیں مثلا جودھا اکبر، اشوکا اور بھگت سنگھ وغیرہ آئی ہیں۔ اپنے تاریخی پس منظر کی وجہ سے ان فلموںکا بھی اردو زبان کے اس لہجے سے جسے خالص ہندستانی زبان کہا جاتا ،گہرارشتہ ہے۔
آپ نے دیکھا کہ ہر دوجہت سے ان فلموں کے رشتے اردو سے گہرے اور مضبوط ہیں۔ جب کہ یہ چند تصویریں اور جھلکیاں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فلموں کا رشتہ اردو زبان وادب سے اس سے بھی زیادہ گہرا اور گتھا ہوا ہے۔ اردو زبان وادب فلموں میں تازہ خون کی طرح سے دوڑتے ہیں ۔ یقینی طور اس تعلق سے اردو زبان وادب کو بھی عوامی مقبولیت کے حصول میں غیری معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔اردو زبان وادب کی تاریخ فلموں کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی لیکن یہ بھی اتنی ہی سچی حقیقت ہے کہ جب جب ہندوستانی فلموں کی تاریخ لکھی جائے گی اردو کے احسانات سے گراں بار رہے گی۔ جس دن فلموں کا یہ رشتہ اردو سے ختم ہوگیا ہندستانی فلمیں پیلیا کا شکار ہوجائیں گی۔

یہ مضمون قومی کونسل کی جانب سے منعقد دو روزہ سیمینار بعنوان ہندوستانی فلمیں اور اردو کے لیے لکھا گیا اور سیمینار میں پیش بھی کیا گیا۔ نیز امام اعظم کی کتاب ہندوستانی فلمیں اور اردو میں شامل کیا گیا ہے۔ نیز امام اعظم کی کتاب ہندوستانی فلمیں اور اردو میں شامل کیا گیا ہے۔